ستمبر دوہزارچوبیس میں کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) گر کر 6.9 فیصد رہ گیا جو ماہئ ستمبر 2023ء کے 31.4 فیصد کے مقابلے نمایاں کمی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ قیمتوں میں اضافے کی مجموعی شرح کافی سست ہے اگرچہ مہنگائی بڑھ رہی ہیں لیکن وہ بہت سست رفتار سے ایسا کر رہے ہیں۔ اعداووشمار سے واضح ہے کہ ستمبر 2023ء کے مقابلے میں گندم کے آٹے کی قیمت میں 37فیصد، چینی کی قیمت میں 15فیصد، مسور کی دالوں میں 7.5فیصد، چاول کی قیمت میں 7فیصد اور گھی کی قیمت میں 6 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔مئی 2023ء کا ڈراؤنا خواب یاد ہے؟ موٹر ایندھن میں 64فیصد اضافہ ہوا۔ وہ ایک مشکل وقت تھا کیونکہ تب گیس کی قیمتوں میں بھی 63فیصد اضافہ ہوا جس کی وجہ سے گھریلو صارفین کو شدید مشکلات کا سامنا رہا۔ بجلی کے بلوں میں 59فیصد اضافے نے عوام کو مشکلات میں ڈال دیا۔ وہ بے پناہ مشکلات کا وقت تھا۔ جسے نہ صرف برداشت نہیں کیا گیا بلکہ ایسا لگتا تھا جیسے عوام کو آگ کے دریا میں ڈال دیا گیا ہو لیکن اب صورتحال بہتر ہے۔ہم طوفان سے باہر نکل آئے ہیں اور بدترین دور ختم ہو گیا ہے۔
اعدادوشمار گواہ ہیں کہ موجودہ حکومت کے صرف 216دنوں میں پٹرول کی قیمت میں 60روپے فی لیٹر کمی کی جو اس مشکل وقت سے قابل ذکر تبدیلی ہے۔ پاکستان کی معاشی و اقتصادی حالت ہر دن بہتر ہو رہی ہے۔ اگر حصص مارکیٹ (سٹاک مارکیٹ) کو دیکھا جائے جہاں بینچ مارک کے ایس ای 100انڈیکس نے مالی سال 2024ء میں روپے کے لحاظ سے 89 فیصد کا متاثر کن سالانہ منافع دیا جبکہ ڈالر کے لحاظ سے منافع اس سے بھی زیادہ یعنی 94فیصد رہا۔ پاکستان سٹاک ایکس چینج میں جشن منانے کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہے۔ اس طرح کا غیر معمولی منافع اہم تبدیلی کی عکاسی کر رہا ہے‘ جس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھا ہے اور مارکیٹ میں مثبت اشارے ملے ہیں۔ اعدادوشمار یہ بھی بتا رہے ہیں کہ پاکستان کی مصنوعات کی برآمدات میں 11 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جو گزشتہ سال کے 27ارب ڈالر سے بڑھ کر 31ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ چین کو برآمدات میں 14فیصد اضافہ ہوا ہے اور مجموعی طور پر یہ اضافہ 3.6 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ ملک کی ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی برآمدات میں معمولی اضافہ اپنی جگہ اہم ہے اور یہ 16.6 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ دریں اثنا پاکستان کی آئی ٹی برآمدات میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو سال بہ سال 24 فیصد اضافے کے ساتھ 3.2 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور گزشتہ مالی سال میں 2.59 ارب ڈالر رہا۔ جون 2024ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے اپنی کلیدی پالیسی ریٹ میں ڈیڑھ سو بیسس پوائنٹس کمی کی‘ جو پانچ سال کے عرصے میں پہلی بار شرح سود میں کمی ہے۔ گزشتہ ماہ اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ میں مزید دو سو بیسس پوائنٹس کی کمی کی تھی جس کے بعد یہ کم ہو کر ساڑھے سترہ فیصد رہ گئی تھی۔ تین اکتوبر کو چھ ماہ کے ٹی بلوں پر کٹ آف منافع گھٹ کر 14.4 فیصد رہ گیا۔ توقع ہے کہ اس مالیاتی نرمی سے حکومت کے قرضوں کی ادائیگی
کے اخراجات میں کمی آئے گی اور نجی شعبے پر سود کا بوجھ بھی بتدریج کم ہوگا‘ جس سے لیکویڈیٹی میں اضافہ ہوگا اور سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا۔نمبر قابل تصدیق و بھروسہ اور اعداد و شمار ٹھوس ہیں۔ پاکستان کی معاشی بہتری مثبت ہے اور یہ صورتحال بہتری کی جانب گامزن بھی ہے۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کی برآمدات میں 14 فیصد اضافہ غیرمعمولی ہے جس سے برآمدات 7.87 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں اور زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 10.7 ارب ڈالر ہو گئے ہیں جبکہ روپیہ کافی حد تک مستحکم ہے۔پاکستان کا معاشی منظرنامہ روشن ہے۔ یقینی طور پر سیاسی اور عدالتی حلقوں کی جانب سے منفی اشارے مل رہے ہیں اور بدامنی معاشی رفتار کو سست کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ پاکستان پیچیدگیوں بھری مشکلات کے دور سے گزر رہا ہے اور خطرہ برقرار ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور عدالتی غیر یقینی صورتحال معاشی میدان میں پیش رفت پر اثر انداز ہو سکتی ہے‘ جس سے معاشی صورتحال میں بہتری کے جاری عمل کی رفتار اور معاشی بہتری کی اُمیدیں کم ہو سکتی ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)