بین الاقوامی صورتحال ہو یا پھر وطن عزیز میں سیاسی منظرنامے کی گرما گرمی‘ عالمی منڈی کا اتار چڑھاؤ ہو یا پھر ملک کی اقتصادی صورتحال‘کسی بھی ریاست میں عوام اس سب سے لاتعلق نہیں۔تاہم اس سب کے ساتھ عام شہری اپنے لئے ریلیف کا منتظر رہتا ہے‘ حکومت کی ترجیحات جو بھی ہوں عام شہری کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ پہلے اسے ریلیف دیا جائے‘ حکومت مرکز میں ہو یا کسی بھی صوبے میں اس کی ترجیحات میں عوام کی فلاح و بہبود شامل ہی ہوتی ہے‘ تاہم حکومتی اقدامات عام شہری کیلئے اسی صورت ثمر آور ثابت ہوتے ہیں جب اسے عملی طور پر ریلیف کا احساس ہو‘ اس مقصد کیلئے حکومت اقدامات اور ان کے برسرزمین عملی نتائج کے درمیان گیپ ختم کرنے کیلئے میکنزم ضروری ہوتا ہے‘ وطن عزیز میں اقتصادی شعبے کو درپیش مشکلات حقیقت ہیں‘ ان مشکلات کے باوجود حکومت کے ذمہ دار دفاتر اعدادوشمار کی روشنی میں وقتاً فوقتاً اصلاح احوال کیلئے اٹھائے جانیوالے اقدامات کی تفصیل اور اقتصادی اشاریوں میں بہتری کی نشاندہی بھی کرنے میں معیشت کے درست ٹریک پر آنے‘زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنے‘کرنسی کی قدر میں بہتری کی نوید آتی ضرور ہے تاہم مارکیٹ میں صورتحال جوں کی توں ہی دکھائی دیتی ہے‘ اسی طرح بعض اوقات خود ادارہ شماریات بڑے حوصلہ افزاء نتائج کے حامل اعدادوشمار پیش کرتا ہے تاہم ان کی روشنی میں عملی ریلیف کا کوئی احساس عام شہری کو نہیں ہوتا‘ اس کے برعکس گرانی کی شرح میں اضافے کی بات ہو تو پیش ہونے والے اعدادوشمار سے زیادہ ہی مہنگائی مارکیٹ میں نوٹ ہوتی ہے‘ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ میں تو خود مہنگائی کی شرح میں اضافہ دکھایا جارہا ہے اس اضافے میں 19 اشیاء کی قیمتیں بڑھنے جبکہ 9 کے نرخوں میں کمی کا بتایا جا رہا ہے ذمہ دار دفاتر کے پاس مہیا تفصیلات کے مطابق ملک میں مہنگائی کی سالانہ شرح15.022 فیصد ہوگئی ہے‘ اس سب کیساتھ مارکیٹ میں مصنوعی مہنگائی‘ ذخیرہ اندوزی اور انسانی صحت و زندگی کیلئے خطرہ بننے والی ملاوٹ کو دیکھا جائے تو اس ساری صورتحال میں غریب اور متوسط طبقے کے شہری بری طرح متاثر دکھائی دیتے ہیں حکومت عوام کی فلاح و بہبود صرف اس صورت ممکن بنا سکتی ہے جب عوامی ریلیف کیلئے اٹھائے جانیوالے حکومتی اقدامات کے برسرزمین عملی نتائج کو یقینی بنایا جائے اور اس حوالے سے پورے سسٹم میں موجود سقم دور کئے جائیں۔