تلخ حقائق سے چشم پوشی؟

وطن عزیز کی سیاست ایک عرصے سے گرما گرمی کا شکار ہی ہے‘کبھی ایک تو کبھی دوسرے ایشو پرسیاسی منظرنامے کا گراف بلند ہو جاتا ہے بعض اوقات چند روز کی خاموشی بھی چھاجاتی ہے تاہم پھر الفاظ کی گولہ باری شروع ہو جاتی ہے‘اس دوران وقفے وقفے سے پاور شوز بھی دیکھنے کو ملتے ہیں‘دوسری جانب درپیش اقتصادی صورتحال‘ بدانتظامی‘ چیک اینڈ بیلنس کے فقدان میں عام شہری کی مشکلات تلخ حقائق کی صورت اختیار کئے ہوئے ہیں‘غریب اور متوسط طبقے کیلئے سب کچھ اذیت ناک ہو چکا ہے‘ بین الاقوامی اقتصادی منظرنامہ ہو‘یا پھر وطن عزیز کو درپیش دیگر شعبوں کی مشکلات‘پوری صورتحال میں متاثر غریب شہری ہی ہوتا ہے‘اس شہری کا ریلیف اس بات سے جڑا ہوا ہے کہ ذمہ دار دفاتر سب اچھا کی بجائے برسرزمین تلخ حقائق کا احساس کریں اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ عالمی بینک کے مطابق716 ملین افراد انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں‘اعداد  و شمار کے مطابق ایک سال میں غربت کیلئے مقررہ پیمانوں کے مطابق زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں 23 ملین کا اضافہ ہوا ہے‘ دریں اثناء بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطابق پاکستان دنیا کے غریب ترین ممالک کی فہرست میں 52 ویں نمبر پر ہے‘ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں شامل192 ممالک میں پاکستان کا نمبر161 ہے مارکیٹ میں گرانی کو دیکھا جائے تو دنیا میں غربت کیلئے مقررہ پیمانے کی روشنی میں یومیہ آمدنی اور مارکیٹ میں مہنگائی نے مجموعی صورتحال تبدیل کر رکھی ہے‘ مصنوعی مہنگائی کیساتھ ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کا سلسلہ بھی جاری ہے‘بے روزگاری اذیت ناک صورت اختیار کئے ہوئے ہے‘ عام شہری کو بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں‘ ہسپتالوں میں مریضوں کو سہولیات معیار کے مطابق نہیں مل رہیں‘بنیادی شہری سہولیات کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود حکومتی ادارے اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ آبادی کے بڑے حصے کو پینے کا صاف پانی تک نہیں مل رہا‘ ساری صورتحال متقاضی ہے کہ مرکز اور صوبوں میں برسراقتدار حکومتیں تلخ حقائق کا سامنا کرتے ہوئے ضروری اقدامات یقینی بنائیں۔