سب اچھا نہیں ہے

سیاست کے میدان میں کون جیتا اور کون ہارا‘ ایوان میں کس نے اکثریت دکھائی اور کس نے اعتراض کیا‘سیاسی بیانات میں کتنی حدت اور کتنی شدت ہے‘احتجاج کب ہوا اور کب ہوگا یہ سب اپنی جگہ‘ملک میں درپیش صورتحال کے تناظر میں عوام کے مسائل کا حل اپنی جگہ توجہ طلب ہے‘کمر توڑ گرانی عام شہری کیلئے اذیت ناک صورتحال اختیار کئے ہوئے ہے اس مہنگائی کے باوجود مارکیٹ کنٹرول کیلئے ناکافی انتظامات نے صارفین کومزید اذیت سے دوچار کر دیا ہے‘عام شہری مصنوعی مہنگائی انسانی صحت کیلئے مضر ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کے باعث سخت مشکلات سے دوچار ہے جبکہ انتظامیہ کے دوچار چھاپوں کو مسئلے کا حل قرار دے کر سب اچھا ہے کی رپورٹ پیش ہو جاتی ہے جس پر اکتفا کرکے اعلیٰ حکام خود موقع پر جانا اور برسرزمین حقیقت سے آگاہی حاصل کرنا قطعاً ضروری نہیں سمجھتے یہی حال دیگر سیکٹرز کا بھی ہے‘ اربوں روپے کا بجٹ ہر سال عوام کو علاج کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے جاری ہوتا ہے جبکہ عام شہری اکثر سرکاری علاج گاہوں میں سہولیات نہ ملنے کا گلہ کرتا ہے‘ یہ شہری پورا دن سروسز کے حصول کیلئے ٹھوکریں کھانے کے بعد شام کو پرائیویٹ کلینک میں جاکر علاج کرانے کیلئے مجبور ہوتا ہے‘یہاں آکر بھی اسے چارجز کی ادائیگی کسی قاعدے  قانون سے آزاد رہ کر ہی کرنا پڑتی ہے‘ جس کی جو مرضی آئے فیس وصول کرے‘لیبارٹری اور ریڈیالوجی میں جس کا جو دل چاہے وصول کرے نہ انہیں حکومتی سطح پر کوئی مراعات اور سہولیات حاصل ہیں نہ ہی چارجز کے حوالے سے کوئی قاعدہ قانون ابھی تک طے ہو پایا ہے‘ بنیادی شہری سہولیات سے متعلق درجنوں اعلانات اور اقدامات اپنی جگہ پر ہیں جن سے فائلیں بھری پڑی ہیں جبکہ برسرزمین صورتحال یہ ہے کہ خود ذمہ دار سرکاری دفاتر اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ آبادی کے ایک بڑے حصے کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہے دیگر میونسپل سروسز کی معیار کے مطابق فراہمی کا تو تصور تک محال ہے‘درپیش صورتحال متقاضی ہے کہ صرف سب اچھا ہے کی رپورٹس پر انحصار کی روش ترک کی جائے ارضی حقائق سے آگاہی کیلئے موقع پر جا کر دیکھا جائے کہ عملی نتائج کتنے فیصد ہیں اس سب کیلئے ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے موثر حکمت عملی اختیار کرنا ضروری ہے۔