سیاسی منظرنامہ کچھ بھی ہو اور سیاحتی قیادت کے ایک دوسرے کے خلاف بیانات جو بھی ہوں مرکزاور صوبوں میں برسراقتدار حکومتوں کیلئے برسرزمین تلخ حقائق سے چشم پوشی ممکن نہیں حکومتیں عوام کے ریلیف اور تعمیر و ترقی کیلئے جتنے منصوبوں کے اعلانات کریں اور جتنی بھی حوصلہ افزا تقریریں کی جائیں وہ اپنی جگہ‘عام آدمی کی مشکلات کا گراف مسلسل بڑھتا چلا جارہا ہے‘ حکومت کے ذمہ دار دفاتر کا زیادہ وقت قرضوں کے حصول اور انہیں ری شیڈول کرنے پر ہی صرف ہو رہا ہے حکومت مرکز میں ہو یا کسی صوبے میں‘اس کی جانب سے عائد ہونے والا ہر ٹیکس عوام کو ادا کرنا پڑتا ہے جبکہ مراعات اور سہولیات کا اعلان سرمایہ دار تک محدود رہتا ہے اور اس کا فائدہ عام شہری تک پہنچنے کا کوئی محفوظ نظام تک بھی صحیح معنوں میں آپریشنل نہیں ہو پارہا‘ درپیش مشکل صورتحال میں خبررساں ایجنسی کی تازہ رپورٹ میں بتایا جا رہا ہے کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے زرعی آمدن ٹیکس کے نفاذ کیلئے صوبوں سے مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے اس ٹیکس کیلئے جنوری2025ء تک کا وقت دیا گیا تھا اور قانون سازی کیلئے ٹائم فریم30اکتوبر کا رکھا گیا تھازرعی ٹیکس کا حجم5سے45 فیصد رکھا گیا ہے یہ ٹیکس ادا عوام نے کرنا ہے وطن عزیز کے درپیش اقتصادی منظرنامے میں معیشت کھربوں روپے کی مقروض ہو چکی ہے جبکہ قرضے دینے والوں کی شرائط کا سارا بوجھ غریب عوام کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے غریب عوام کو مشکلات کا سامنا اس وجہ سے بھی برداشت کرنا پڑتا ہے کہ مارکیٹ میں کنٹرول کا کوئی موثر انتظام نہیں اس انتظام کی عدم موجودگی میں مصنوعی مہنگائی کے ساتھ صحت کیلئے انتہائی مضر ملاوٹ کا سامنا بھی ہے‘ ملک کے عام شہری کو خدمات کے اداروں میں سروسز بھی معیار اور ضرورت کے مطابق نہیں مل رہیں حکومتوں کے میگااور دیگر منصوبے اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں تاہم عام شہری کیلئے برسرزمین ریلیف کا احساس نہ ہونے پر سب بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے ضرورت ہے کہ فیصلہ سازی اور منصوبہ بندی کے مراحل میں برسرزمین تلخ حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام کیلئے ریلیف یقینی بنایا جائے اس حوالے سے صرف سرکاری رپورٹس پر انحصار کی روش ترک کرتے ہوئے حقائق کو مدنظر رکھنا ہوگا۔