پشاور بھی وکٹری سٹینڈ پر

خیبر پختونخوا کا پایہ تخت پشاور سموگ کے حوالے سے بھی نمایاں پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے‘ لاہور کی پہلی پوزیشن گو کہ برقرار ہے تاہم پشاور بھی سرتوڑ مقابلہ کر رہا ہے‘ اتوار کے روز کا ایئر کوالٹی انڈیکس 500 سے زائد ہونے پر پشاور کا شمار ملک کے 3 بڑے آلودہ شہروں میں ہونے لگا۔ درپیش صورتحال کے تناظر میں بازار رات 8 بجے بند کرنے کی تجویز بھی آ رہی ہے‘ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت کی مجموعی حالت کو دیکھتے ہوئے یکے بعد دیگرے برسر اقتدار آنے والی حکومتیں اصلاح احوال کا عزم دہراتی چلی آ رہی ہیں‘ کبھی کبھار کے اجلاسوں سے متعلق جاری تفصیل میں بتایا جاتا رہا ہے کہ تجویز کردہ اقدامات پر عمل درآمد کے نتیجے میں خیبر پختونخوا کا دارالحکومت ترقیافتہ شہروں میں شمار ہونے لگے گا‘ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ شہر کی حالت پہلے سے زیادہ دگرگوں دکھائی دینے لگتی ہے۔ آبادی میں اضافے‘ بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کے رجحان اور لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی نے اس شہر کے انفراسٹرکچر پر دباؤ میں اضافہ کیا ہے جبکہ شہر کے اطراف آبادی کا بے ہنگم پھیلاؤ اور اربن پلاننگ کا فقدان اپنی جگہ صورتحال کے بگڑنے کا سبب بننے لگا‘ شہر میں نکاسی آب کے لئے موجود انفراسٹرکچر کم پڑ گیا جبکہ آبنوشی کی پائپ لائنیں بوسیدہ اور زنگ آلود ہونے پر سیوریج لائنوں سے گزرتے ہوئے بیماریاں بانٹنے لگیں‘ شہر کی سڑکیں ٹریفک کی ضروریات کے مقابلے میں کم پڑ گئیں‘ منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی کے ذمہ دار دفاتر نے اصلاح احوال کے لئے اقدامات کا احساس کیا بھی تو زیادہ تر توجہ شہر کی مرکزی شارع جی ٹی روڈ اور چند دوسری اہم سڑکوں تک ہی محدود رہی‘ صفائی ہو یا شجرکاری‘ ٹریفک کے لئے بس سروس ہو یا لائٹنگ کی سہولت تمام وسائل چند سڑکوں تک محدود رہے۔ گو کہ صورتحال یہاں بھی مثالی قرار نہیں دی جا سکتی تاہم اندرون شہر کے مقابلے میں پھر بھی کچھ بہتری دکھائی دیتی ہے۔ شہر کی صفائی ستھرائی ہمیشہ سوالیہ نشان ہی رہی ہے‘ نکاسی آب کی نالیوں کو کلیئر رکھنے کی ضرورت ہے شہر سے کچرا بروقت ٹھکانے لگانے کے لئے مؤثر حکمت عملی ناگزیر ہے‘ شہروں میں موجود نہروں کے نکاسی آب کی لائنوں اور کوڑا کرکٹ کے لئے استعمال کو روکنا بھی ناگزیر ہے‘ یہ سب مؤثر حکمت عملی اور پھر اس پر عمل درآمد کے محفوظ نظام سے مشروط ہے۔