دنیا میں جنگل کا قانون رائج ہے! جی سیون (گروپ آف سیون جو کہ سرمایہ دار ممالک کی نمائندہ تنظیم ہے) غیرفعال ہو چکا ہے۔ جی ٹوئنٹی (بیس کا گروپ) بھی غیر متعلقہ ہو چکا ہے جس کے بعد ایک کثیر الجہتی دنیا اُبھر کر سامنے آئی ہے جس میںگزرے ہوئے دور کی باقیات شامل ہیں۔ امریکہ کے نومنتخب ٹرمپ کی حلف برداری بیس جنوری کو طے ہے جس میں آٹھ دن باقی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اچھی حکمرانی کریں اور یہی وہ دور ہوگا جب دنیا ’جی زیرو‘ بن جائے گی۔ ایک افراتفری سے پاک دنیا جہاں کسی ملک کی کسی دوسرے ملک میں مداخلت نہیں ہو گی۔چین کے صدر شی جن پنگ، جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کو چلا رہے ہیں، جس کا حجم اٹھارہ کھرب ڈالر ہے جبکہ چین کو بڑھتے ہوئے مالیاتی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ صدر شی کی توجہ قومی سلامتی اور داخلی سیاسی کنٹرول کو مستحکم کرنے پر مرکوز ہے۔ دریں اثناءجرمنی میں 4.7 کھرب ڈالر کی معیشت کی قیادت کرنے والے چانسلر اولاف اعتماد کھو چکے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی حکومت گر گئی ہے۔ جرمنی میں جاری سیاسی ہلچل نے عوامیت پسند اور انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے لئے آنے والے وفاقی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی راہ ہموار کر دی ہے۔ اسی طرح جاپان میں لبرل ڈیموکریٹک پارٹی، جو چار کھرب ڈالر کی معیشت پر حکومت کرتی ہے، اپنی اکثریت کھو چکی ہے، جس کی وجہ سے نو منتخب وزیر اعظم شیگیرو غیر یقینی اور ممکنہ طور پر غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ صرف آٹھ دنوں میں، میڈیا سے واقف، عوامیت پسند اور غیر متوقع ڈونلڈ ٹرمپ، جو اپنے امریکہ فرسٹ نامی ایجنڈے کی تکرار کر رہے ہیں، امریکہ کے 45ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے۔ وائٹ ہا¶س، ایوان نمائندگان اور سینیٹ پر ری پبلکن کنٹرول کی حمایت سے صدر ٹرمپ بے مثال سیاسی طاقت کے حامل ہوں گے۔ ان کی کابینہ میں 13ارب پتی شامل ہیں جو 29 کھرب ڈالر کی امریکی معیشت کو چلانے کی ذمہ داری سنبھال رہے ہیں۔مضبوط شرح نمو اور ریکارڈ توڑ سٹاک مارکیٹ کی بنیاد پر امریکی معیشت ٹرمپ کو اپنی جرات مندانہ اور جارحانہ پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لئے مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے۔ کارپوریٹ منافع میں اضافے کے ساتھ جدت کو فروغ دینے والے بے مثال تکنیکی غلبے کے ساتھ ٹرمپ مقامی اور عالمی سطح پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ یہ معاشی لچک اور تکنیکی برتری ٹرمپ کو بین الاقوامی سطح پر سوچ سمجھ کر خطرات مول لینے کے قابل بناتی ہے، جس کا مقصد اپنے ویژن کے مطابق عالمی نظام کو نئی شکل دینا ہے۔ٹرمپ نے اپنے غیر روایتی انداز پر عمل کرتے ہوئے پاناما کینال اور یہاں تک کہ گرین لینڈ جیسے اسٹریٹجک لحاظ سے اہم علاقوں میں امریکی مفادات کے لئے فوجی طاقت کے استعمال کو مسترد کرنے سے انکار کر دیا ہے، جو عالمی جغرافیائی سیاست کے لئے ممکنہ طور پر جارحانہ نکتہ¿ نظر کی نشاندہی کرتا ہے۔ ٹرمپ کی صدارت میں طے شدہ اصولوں کو چیلنج کرنے‘ اتحادیوں اور مخالفین کو یکساں طور پر خطرے میں رکھنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہا¶س واپسی میں صرف آٹھ دن باقی رہ گئے ہیں اور ان کا پہلا دوست پہلے ہی بیرون ملک سیاسی منظر نامے کو ہلا رہا ہے اور پاکستان کو دی جانے والی غیر ملکی امداد کو منجمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔پاکستان امریکی انتظامیہ کے سنگین مضمرات کو مسترد کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا جس کی قیادت ارب پتیوں کی اکثریت والی کابینہ کر رہی ہے۔ ٹرمپ کا جارحانہ مو¿قف اور غیر ملکی امداد کو متنازعہ معاملات سے جوڑنے کی خواہش خالصتا لین دین کی سفارت کاری کی طرف منتقلی ہے، جہاں اتحاد نہیں بلکہ اقدامات نتائج کا تعین کریں گے۔ جی زیرو کی اس دنیا میں پاکستان کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے امریکی انتظامیہ کی ہاں میں ہاں ملانا ہوگی کیونکہ بے حسی کے مظاہرے یا غلط اندازے کے دور رس نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)