تمباکو نوشی سے پاک مستقبل

پاکستان میں پریکٹس کرنے والے جنرل فزیشنز اکثر مریضوں کی صحت پر تمباکو نوشی کے تباہ کن اثرات دیکھتے ہیں جن سے سانس کی بیماریاں‘ امراض قلب و دیگر دائمی بیماریاں جڑی ہوئی ہیں۔ تمباکو نوشی سے لاحق صحت کے خطرات کو جاننے کے باوجود، نکوٹین کی لت نشے کی ایک قسم ہے۔ صحت عامہ کی بہتری کے لئے کئی دہائیوں سے جاری کوششیں اور تمباکو نوشی کے خلاف سخت قوانین کے باوجود بھی پاکستان میں بھی تمباکو نوشی کی شرح زیادہ ہے۔ درحقیقت تمباکو نوشی کی وجہ سے سالانہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار پاکستانی ہلاک ہو رہے ہیں اور اس کے علاؤہ معاشی نقصانات میں نمایاں اضافہ بھی ہوا ہے۔ مثال کے طور پر یورپی یونین (ای یو) کو لے لیجئے۔ ڈاکٹر ڈیلن ہیومن کی تحریر کردہ ’مسنگ دی ٹارگٹ‘ نامی ایک رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کی جانب سے تمباکو نوشی سے پاک ماحول کی جانب پیش رفت توقعات سے کہیں زیادہ سست ہے۔ سال دوہزاربیس کے بعد سے یورپی یونین میں تمباکو نوشی کی شرح میں صرف ایک فیصد کمی آئی ہے تاہم، سویڈن یورپی یونین کا واحد ملک ہے جو مقررہ وقت سے پہلے تمباکو نوشی سے پاک ملک کی حیثیت تک پہنچ گیا ہے۔ تمباکو کے نقصان کو کم کرنے کی حکمت عملی کو اپناتے ہوئے، سویڈن نے مختلف حکمت عملی اپنائی۔ صرف تمباکو نوشی کو بدنام کرنے کے بجائے، ملک نے اپنی عوامی صحت کی حکمت عملی کے طور پر نکوٹین تھیلیاں، ویپس (ای سگریٹ) اور گرم تمباکو کی مصنوعات جیسے متبادل پیش کئے۔ سویڈش پبلک ہیلتھ ایجنسی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اس حکمت عملی کی وجہ سے تمباکو نوشی کی شرح میں ڈرامائی کمی واقع ہوئی اور قومی شرح اب صرف ساڑھے چار فیصد کے آس پاس منڈلا رہی ہے۔ سویڈن کی کامیابی مثال ہے کہ کس طرح تمباکو نوشی سے ہونے والے نقصانات میں کمی لائی جا سکتی ہے اور اِس سے مؤثر طریقے سے نمٹا جا سکتا ہے اور اگر دیگر ممالک بھی اِس ماڈل کو اپنائیں تو وہ بھی تمباکو نوشی سے پاک ہو سکتے ہیں۔ ماہرین نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ تمباکو نوشی کے خلاف موجودہ اقدامات سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے۔ سویڈن کی کامیابی کی کہانی تمباکو نوشی کے خلاف کسی ملک کی قومی حکمت عملی کی تاثیر اور کامیابی کو ظاہر کر رہی ہے۔ تمباکو نوشی سے پاک لیکن تمباکو کے متبادل دیگر اجناس کی کم قیمت دستیابی اور اُسے قابل قبول بنانا پاکستان کے لئے مفید ثابت ہو سکتا ہے لیکن اگر اِس پر عمل درآمد کیا جائے۔پاکستان میں تمباکو نوشی کے زیادہ پھیلاؤ اور صحت عامہ کے نظام پر تمباکو نوشی سے متعلق بیماریوں کے دباؤ کے پیش نظر، ہمارے پاس تمباکو پر قابو پانے کے لئے زیادہ جامع اور عملی نقطہ نظر اپنانے کا انوکھا موقع موجود ہے۔ سویڈن کی طرح صحت عامہ کی حکمت عملیوں میں نقصانات میں کمی لانے والی مصنوعات کو فروغ دے کر پاکستان میں تمباکو نوشی کی شرح کم کرنے کی سمت میں خاطر خواہ پیش رفت کی جا سکتی ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ وروں کو چاہئے کہ وہ اِس سلسلے میں عوامی شعور میں اضافہ کریں۔ مریضوں کے علاج معالجے کے ساتھ اُن کی صحت اور فلاح و بہبود کے لئے بھی سوچنا چاہئے۔  (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر صبا تھہیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

پاکستان جیسی معیشت کو تمباکو نوشی کے خلاف زیادہ سخت گیر اور عملی نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹروں اور قومی و صوبائی پالیسی سازوں سمیت معاشرے کے ہر باشعور شخص کا فرض ہے کہ وہ تمباکو کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرے اور اِس کے نقصانات میں کمی کے لئے قومی مربوط حکمت عملی وضع کی جائے کیونکہ یہ معاملہ صرف تمباکو نوشی کی شرح کم کرنے سے متعلق نہیں بلکہ انسانی زندگیاں بچانے سے متعلق ہے اور جس نے ایک کسی ایک انسان کی جان بچائی تو گویا کہ اُس نے پوری انسانیت کی جان بچائی ہو۔