موجودہ علم پر مبنی معیشت کا مطلب عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ بیرونی علم‘ خاص طور پر تکنیکی علم تک رسائی اور اسے جذب کرنے‘ اسے مقامی ضروریات کے مطابق ڈھالنے اور صنعتی تنوع‘ ویلیو ایڈیشن اور مسابقت کو فروغ دینے کیلئے نت نئے علوم جنم لے رہے ہیں اور اسی پیمانے پر کسی ملک کی صلاحیت پر انحصار کیا جاتا ہے۔ پبلک آر اینڈ ڈی فنڈنگ بنیادی اور اطلاقی دونوں شعبوں میں یونیورسٹی پر مبنی تحقیق کو آگے بڑھانے‘ تدریس کے معیار کو بڑھانے اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی بہتری میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دریں اثنا‘ کاروباری آر اینڈ ڈی اخراجات کسی فرم کی سطح پر سیکھنے اور تکنیکی تبدیلی کیلئے ضروری صلاحیت پیدا کرنے کی صلاحیت اور اس کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ عالمی سطح پر‘ عوامی آر اینڈ ڈی فنڈنگ کے مقابلے میں کاروباری آر اینڈ ڈی اخراجات کا حصہ نمایاں طور پر بڑھ گیا ہے۔ مثال کے طور پر سال دوہزاربارہ میں‘ عالمی آر اینڈ ڈی اخراجات کا تخمینہ 2.6 کھرب ڈالر لگایا گیا تھا‘ او ای سی ڈی ممالک کے ساتھ چین اور دیگر تیزی سے ترقی پذیر ممالک میں‘ کاروباری آر اینڈ ڈی سرکاری اخراجات کے مقابلے میں مجموعی آر اینڈ ڈی اخراجات کا بہت بڑا حصہ پیش کرتا ہے۔ پاکستان میں نجی شعبے کی آر اینڈ ڈی تقریباً صفر ہے۔ آج پاکستان کے آر اینڈ ڈی اخراجات جی ڈی پی کا صرف 0.16 فیصد ہیں‘ جو بھارت کے 0.8 فیصد‘ چین کے 2.65 فیصد اور جنوبی کوریا کے 5.2 فیصد سے بہت کم ہیں۔ مزید برآں‘ پاکستان میں کاروباری آر اینڈ ڈی کل آر اینڈ ڈی اخراجات کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے اور یہ برس ہا برس سے جمود کا شکار ہے۔ پاکستان میں پبلک آر اینڈ ڈی فنڈنگ کا تقریباً 60 فیصد دفاعی تحقیق کیلئے مختص کیا جاتا ہے‘ جس سے یونیورسٹی کی تحقیق اور قومی آر اینڈ ڈی تنظیموں کیلئے وسائل کم رہ جاتے ہیں۔ پاکستان میں ٹیکس الاؤنسز‘ ٹیکس کریڈٹس یا انوویشن گرانٹس جیسے میکانزم کے ذریعے نجی آر اینڈ ڈی کی حوصلہ افزائی کرنے والی پالیسیوں کا بھی فقدان ہے۔ صنعت اور تعلیمی اداروں کے درمیان معاہدوں پر مبنی آر اینڈ ڈی تعاون شاذ و نادر ہی سامنے آتی ہیں‘ جس کی بنیادی وجہ انکیوبیٹرز اور ٹیکنالوجی پارکس جیسے برجنگ اداروں کی عدم موجودگی ہے۔ مزید برآں‘ عوامی مالی اعانت سے ہونے والی تحقیق کے نتیجے میں انٹلیکچوئل پراپرٹی کے تحفظ کیلئے قوانین و قواعد کی طرح کا فریم ورک موجود نہیں ہے۔ بین الاقوامی کارپوریشنز ترقی پذیر ممالک میں آر اینڈ ڈی کو آگے بڑھانے کیلئے اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ تاریخی طور پر‘ ٹی این سی نے ان علاقوں میں اپنی آر اینڈ ڈی کو مقامی مارکیٹوں تک محدود کرتی ہیں تاہم‘ یہ رجحان اب بدل گیا ہے‘ ٹی این سی اب ان ممالک میں آر اینڈ ڈی مراکز قائم کر رہے ہیں جہاں وہ کم لاگت پر ہنر مند افراد کی خدمات حاصل کرسکیں۔ بھارت اور چین نے اس رجحان کا فائدہ اٹھایا ہے جبکہ پاکستان میں حکومت نہ تو ٹی این سیز سے ٹیکنالوجی کی منتقلی کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے اور نہ ہی ٹی این سی آر اینڈ ڈی سہولیات کے قیام میں سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ اسی طرح تائیوان کے کمپیوٹر سیکٹر اور بھارت کے آئی ٹی سیکٹر جیسی صنعتوں میں اہم کردار ادا کرنے والے تارکین وطن کے نیٹ ورکس بھی پاکستان میں موجود نہیں‘ 1970ء کی دہائی کے آخر میں‘ چین نے اپنے عوامی سائنس‘ ٹیکنالوجی اور آر اینڈ ڈی کے شعبوں میں جامع اصلاحات کیں‘ جس کے تین پہلو تھے۔ 1: فنڈنگ کے نظام میں اصلاحات‘ 2: آر اینڈ ڈی مینجمنٹ کی بہتری اور 3: تحقیقی اداروں یا صنعت کے مابین روابط کی مضبوطی۔ ان اصلاحات کے ذریعے اداروں کیلئے عوامی فنڈنگ کو کم کردیا گیا تھا‘ جس سے انہیں کنٹریکٹ ریسرچ یا مشاورتی خدمات کے ذریعہ متبادل فنڈنگ حاصل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اطلاقی تحقیق کو فروغ دینے کیلئے ترغیبات متعارف کرائی گئیں‘ آر اینڈ ڈی مینجمنٹ کو بہتر بنانے کیلئے چین کی کوششوں میں فیصلہ سازی کو غیر مرکزی بنایا گیا‘ کارکردگی کی بنیاد پر تشخیص کے معیار کو اپنایا گیا‘ اداروں کے مابین مقابلے کو فروغ دیا گیا اور کاروباری سرگرمیوں کو متنوع بنایا گیا۔ سرکاری تحقیقی اداروں کو مینوفیکچرنگ تنظیموں کے ساتھ جوڑنے کیلئے نیم سرکاری ادارے قائم کئے گئے۔ جاپان‘ جنوبی کوریا‘ سنگاپور اور تائیوان جیسے دیگر مشرقی ایشیائی ممالک نے بھی اس طرح سے مسابقتی فوائد حاصل کرنے کیلئے سٹرٹیجک صنعتوں میں کاروباری آر اینڈ ڈی میں سرمایہ کاری کو ترجیح دی۔ زیادہ تر ترقی یافتہ اور مشرقی ایشیائی ممالک میں‘ صنعتی اور سماجی ترقی طویل مدتی وژن کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کو جامع اور آگے بڑھنے والا نقطہ نظر اپنانا ہوگا جس کے ایسی حکومتی پالیسیاں وضع کی جائیں جن سے نجی تحقیق و ترقی کی حوصلہ افزائی ہو‘ صنعت اور تعلیمی روابط کو فروغ ملے اور جدت پر مبنی سوچ اور ثقافت کو فروغ ملنا چاہئے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عطا الرحمان۔ ترجمہ اَبواَلحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
خوردنی اجناس کی برآمدات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیات اور انسانی حقوق
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی کا سال
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ٹرمپ: دوسرا دور اقتدار اور پاکستان
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت کے کرشمے
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ڈیجیٹل ایکوسسٹم: معاشی وجودی بحران
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
تحقیقی و تخلیقی صلاحیتیں اور ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
متبادل توانائی پر منتقلی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
بذریعہ تعلیم: مثبت تبدیلی کی کوشش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کوانٹم کمپیوٹنگ کے سو سال
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام