اسلام آباد: رہائشی و سماجی مسائل

سوشل میڈیا کے دور میں ’اسلام آباد‘ کو دنیا کا دوسرا خوبصورت ترین دارالحکومت قرار دیا جاتا ہے‘ خاص طور پر مارگلہ روڈ کے دائیں جانب رہنے والوں اور اسلام آباد کلب کی رکنیت رکھنے والوں کے لئے اسلام آباد جنت نظیر ہے۔ اشرافیہ کے لئے دارالحکومت میں زندگی کا مطلب ہے 700 گز پر محیط وسیع و عریض مکانات، ایف6 سیکٹر میں کوہسار مارکیٹ سے پیدل دوری پر، سرسبز و شاداب سڑکیں، پارک، کھیل کے میدان، سبز نمبر پلیٹوں کے ساتھ کالے رنگ کی سرکاری گاڑیاں، ہا¶س سٹاف اور بااثر سماجی حلقہ معاشرت کا نام ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اسلام آباد صرف مراعات یافتہ چند افراد کے لئے لاجواب ہے کیونکہ اسلام آباد میں رہائش پذیر جو لوگ مراعات یافتہ نہیں، اُن کے لئے صورتحال قطعی مختلف ہے اور رہائش کا سنگین بحران کا درجہ رکھتا ہے‘ جس کی شدت میں ہر گزرتے سال اضافہ ہو رہا ہے۔رہائشی علاقوں میں گیسٹ ہا¶سز اور اپارٹمنٹس کی صورت بے لگام ترقی نے رہائشی عمارتوں کے کرایوں کو تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچا دیا ہے۔ ایف سیکٹرز میں ایک بیڈ روم کے اپارٹمنٹ کی قیمت 65 ہزار سے 75 ہزار روپے کے درمیان ہے جبکہ ای 11 کا کرایہ 45 ہزار سے 65 ہزار روپے کے درمیان ہے۔ یہاں تک کہ صاف ستھرا کھانا اور کپڑے دھونے کی سہولت فراہم کرنے والے بنیادی ہاسٹل میں بھی ماہانہ 30ہزار سے 40ہزار روپے کی ضرورت ہوتی ہے۔ گھر کے مالکان زیادہ تر گیسٹ ہا¶س آپریٹرز کو اپنی جائیدادیں کرایہ پر دینے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ زیادہ کرایہ کی پیش کش کرتے ہوئے گھروں کی تزئین و آرائش اور دیکھ بھال بھی کرتے ہیں۔ اسلام آباد میں زیادہ ہوٹل نہیں اور جو ہیں بھی تو وہ بہت مہنگے ہیں، جس کی وجہ سے گیسٹ ہاو¿سز (مہمان خانے) نسبتاً سستا آپشن ہیں۔ اس مطالبے کے باوجود سی ڈی اے کا فرسودہ ماسٹر پلان سرکاری طور پر رہائشی علاقوں میں گیسٹ ہا¶سز کو کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا جس کی وجہ سے پالیسی میں خلاءموجود ہے لیکن اِس خلاءکو پُر کرنے پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ اسلام آباد کے گیسٹ ہا¶سز کی جائز ضروریات کو ریگولیٹ کرنے اور ایڈجسٹ کرنے کے ماسٹر پلان پر نظر ثانی کی ضرورت ہے لیکن یہ مشکل کام کرنے کی بجائے ’متعلقہ ادارہ (ڈویلپمنٹ اتھارٹی)‘ قطعی مختلف حکمت ِعملی پر عمل پیرا ہے۔ سستی رہائشی سہولیات نہ ہونا اپنی جگہ لیکن اگر گیسٹ ہاو¿سز کو بھی بند کر دیا جائے گا تو اِس سے رہائشی سہولیات مزید کم ہو جائیں گی۔ کسی ہاسٹل کے رہائشیوں کو بے دخلی کے نوٹس دینا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ہر سال کم سے کم دو مرتبہ ’سی ڈی اے‘ اعلان کرتی ہے کہ اسلام آباد کے رہائشی علاقوں میں ہاسٹلز غیر قانونی ہیں۔ اسلام آباد کے ماسٹر پلان کا حوالہ دیا جاتا ہے جس میں رہائشی یا تجارتی علاقوں میں ہاسٹلز کی اجازت نہیں ہے لیکن یہ سب جاننے کے باوجود کہ یونیورسٹیاں، چاہے وہ سرکاری ہوں یا نجی، کیمپس کے ہاسٹلز میں اپنے ایک تہائی طالب علموں کو بھی جگہ نہیں دے سکتیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسلام آباد کی زیادہ تر یونیورسٹیوں میں طلبہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہاسٹل کی سہولت فراہم نہیں کرتیں تاہم، موجودہ حقائق کی عکاسی کرنے کے لئے ماسٹر پلان کو اپ ڈیٹ کرنے کی بجائے، اسلام آباد میں زندہ رہنے کی کوشش کرنے والے نوجوان طلبہ کے لئے زندگی مشکل سے مشکل تر بنا دی گئی ہے۔اسلام آباد میں پبلک ٹرانسپورٹ بھی توجہ طلب ہے اگرچہ ’سی ڈی اے‘ نے بس سروس متعارف کرائی ہے لیکن یہ صرف زون ون اور زون تھری کا احاطہ کرتی ہے۔ اصل طلب زون فور اور فوئیو میں ہے جہاں اسلام آباد ایکسپریس وے کے ساتھ ہا¶سنگ سوسائٹیاں آباد ہو رہی ہیں۔ اِن زونز (علاقوں) سے زیادہ تر ٹریفک سڑکوں پر آتی ہے اور یہی علاقے راولپنڈی سے لاتعداد مسافروں کا گھر بھی ہیں۔ اسکولوں، یونیورسٹیوں، دفاتر اور رہائشی علاقوں کو جوڑنے والے ایک مو¿ثر بس نیٹ ورک کی ضرورت ہے۔ یہ صورتحال غیر متناسب طور پر نوجوان پیشہ ور افراد کو متاثر کر رہی ہے، جن میں سے بہت سے اپنے ابتدائی کیریئر میں ذاتی گاڑیاں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔اسلام آباد میں سستا کھانا ملنا بھی آسان نہیں اُور اِس کے لئے روزانہ جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ اسلام آباد کے رہائشیوں کو سستا کھانا حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، یہاں تک کہ سستے ترین ریسٹورنٹس بھی زیادہ قیمتیں وصول کرتے ہیں۔ محنت کش طبقے کے لئے دھابے اور دکانیں کم قیمت کھانا فراہم کرتی ہیں لیکن ایسے دھابے تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ شہر میں تجاوزات کے خلاف پالیسیوں کی آڑ میں چھوٹے دکانداروں کو نشانہ بنانے کے لئے تجاوزات کی خلاف سارا سال مہم جاری رہتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق مبینہ تجاوزات کے خلاف کریک ڈا¶ن کے تحت اسلام آباد میں دو ہزار سے زائد دکانوں کو غیر قانونی قرار دے کر بلڈوز کیا گیا ہے۔ پرتعیش سرکاری دفاتر (بورڈ رومز) میں بیٹھ کر کئے گئے فیصلوں اور زمینی حقائق کے درمیان فرق حیران کن اور وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ اقتدار کے عہدوں پر فائز افراد اکثر اسلام آباد کے رہائشیوں کی جدوجہد کا احساس نہیں کر رہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ مشکلات کی بجائے آسانیاں پیدا کی جائیں بالخصوص نوجوانوں‘ طلبہ اور پیشہ ور افراد جس طرح معاشی حالات اور مہنگائی سے متاثر ہیں‘ تو اِن کے لئے سہولیات میں اضافہ ہونا چاہئے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر مصطفیٰ طارق وائیں۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)