ایڈولف ہٹلر نے پہلی جرمن جمہوریت ویمار ری پبلک کو تباہ کیا اور بارہ سال بعد خود جرمنی کو تباہ کر دیا۔ تاریخ دانوں کے لئے اس طرح کے واقعات کرسٹل گیند کی طرح ہیں جو تاریک حال کو دیکھنے اور تاریک مستقبل کی پیش گوئی کر سکتا ہے۔ پاکستان 2025ء میں کیسا ہو گا اس کی جھلک منظر عام پر آ چکی ہے۔ ہڑتالوں اور احتجاج کی آڑ میں مسلسل حملوں سے تنگ آ کر پاکستانی ریاست، کاروبار اور سیاست کے اندر کچھ حلقے کہہ رہے ہیں کہ سیاسی استحکام کے راستے کو حاصل کرنے کا واحد راستہ مفاہمت ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ دوسرے مرحلے کے لئے ہے‘ جس میں حالات قابو کئے جا سکیں‘ جوزف گوئبلز کی طرف سے خبردار کر دیا گیا ہے کہ جمہوریت پر سب سے بڑا مذاق یہ ہے کہ یہ اپنے فانی دشمنوں کو اپنی ہی تباہی کا ذریعہ فراہم کرتی ہے۔ نازی رہنما اقتدار میں نہیں آئے۔ اسے مفلوج اشرافیہ نے اقتدار دیا تھا۔ ہٹلر سے پہلے جرمن چانسلر فرانز وان پاپن نے جنوری 1933ء میں ہٹلر کی بطور چانسلر تقرری کی سفارش کی تھی اور فخر سے کہا تھا کہ ”ہم نے اسے ملازمت پر رکھا ہے۔ دو ماہ کے اندر ہم ہٹلر کو ایک کونے میں اتنی سختی سے دبا دیں گے کہ وہ چیخ اٹھے گا۔ میڈیا سے تعلق رکھنے والے الفریڈ ہوگن برگ نے اعلان کیا کہ ہم ہٹلر سے باکسنگ کر رہے ہیں۔ جنرل کرٹ وان شلیچر نے نازی پارٹی کو سیاسی دھارے میں لانے کے لئے زہمنگس یا ٹیمنگ کا عمل بھی شروع کیا تھا۔
ایڈم گوپنک لکھتے ہیں کہ جرمنی کے حکمران طبقات کو یقین تھا کہ ایک فاشسٹ طوفان کے بادلوں کے گزرنے کے بعد اقتدار پر قبضہ کر لے گا۔ یہ سب اندازے غلط ثابت ہوئے۔ ٹموتھی ری بیک نے حال ہی میں ”دی اٹلانٹک منتھلی“ میں لکھا ہے کہ ہٹلر نے منظم طریقے سے اپنے ملک کے جمہوری ڈھانچے اور عمل کو دو ماہ سے بھی کم وقت میں ختم کر دیا یعنی کل ایک ماہ، تین ہفتے، دو دن، آٹھ گھنٹے اور چالیس منٹ لگے۔ جرمنی ایک تباہ حال جمہوریت سے جماعتی آمریت اور ایک پولیس ریاست میں تبدیل ہو گیا۔ اظہار رائے، پریس اور اجتماع کی آزادی ضبط کر دی گئی۔ نئے چانسلر نے ماورائے عدالت اختیارات حاصل کئے کہ وہ لوگوں کو بغیر کسی مقدمے کے گرفتار اور حراست میں لے سکتے ہیں۔ نازی چانسلر نے غیر نازی ریاستی حکومتوں کو معزول کر دیا اور جرمن پارلیمنٹ کے مکمل قانون سازی کے اختیارات پر قبضہ کر لیا۔ ہٹلر نے مزدور یونینوں کو تحلیل کر دیا، سول سروس اور آزاد عدلیہ کو ختم کر دیا اور تمام اپوزیشن جماعتوں کو غیر قانونی قرار دے دیا۔فسطائیت کی طرف جاتے ہوئے پاکستان کی پھسلن والی ڈھلوان کو کیسے ختم کیا جائے؟ کرسٹوفر براؤننگ لکھتے ہیں کہ ”ویمار نے کسی بھی دور کے سیاسی حق کے لئے تین مختلف احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں کہ تقابلی حالات میں کیا نہیں کرنا چاہئے جس میں شامل ہے کہ ایک بڑے جھوٹ کو پھیلایا جائے۔ غداری اور بغاوت کے بعد خاطرخواہ کاروائی نہ کی جائے اور ناکافی سزا دی جائے اور روایتی قدامت پسندوں اور فاشسٹوں کے درمیان اتحاد کو مضبوط کیا جائے۔ ہمارے معاملے میں سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ امریکہ نے 2022ء میں حکومت تبدیل کرنے کی سازش کی تھی اور مئی 2023ء کی بغاوت ایک فالس فلیگ آپریشن تھا۔ 9 مئی 2023ء کی بغاوت پر مقدمہ چلانے میں کمزوری یا سمجھوتے کا خطرہ ناقابل یقین ہے۔ مسلم لیگ (نواز) اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات کے باوجود متحد ہونے کی مفاہمت خوش آئند ہے۔ ویمار جرمنی میں اس طرح کے اتحاد کا فقدان تھا کیونکہ اعتدال پسند بائیں بازو کے سوشل ڈیموکریٹس اور قدامت پسند کیتھولک سینٹرسٹ نے کبھی اتحاد کی کوشش نہیں کی۔ اس کے باوجود پاکستان کے انتہائی برہم حکمران اتحاد کو اب بھی اپنے مخالفین کی وضاحت کرنی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اس غلط فہمی میں ہے کہ رواداری پر عمل کرنے اور پارلیمانی قوانین کی پاسداری کرکے وہ تحریک انصاف کے ہجوم کو قابو کر لیں گے۔ ہائبرڈ حکومت کے ناقدین کا ہجوم یہ سمجھنے
میں ناکام ہے کہ فاشزم آمریت کا بدتر علاج ہے۔ وہ پارلیمانی جمہوریت کی فاشسٹ نفرت کو بھی سمجھنے میں ناکام ہیں۔ ہٹلر پارلیمانی جمہوریت میں موجود سمجھوتے سے نفرت کرتا تھا۔ مؤرخ جان لوکاکس نے لکھا کہ …… ”اپنے مخالفین کے لئے ان کی نفرت اپنے لوگوں کے لئے ان کی محبت کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور کم تجریدی تھی۔ یہ ہر انتہا پسند قوم پرست کے ذہن کا ایک امتیازی نشان تھا (اور اب بھی ہے)۔“ اور اس نتیجہ خیال کی پاکستان کے ساتھ مماثلت خطرناک اور عجیب و غریب ہے۔ پاکستان کے موجودہ حکمران اتحاد کے لئے حالات چیلنج ہیں۔ ہماری تباہ حال جمہوریت فاشسٹوں کے ہاتھوں تباہی سے بہت دور ہے۔ حکمران اتحاد کو اس وقت تک مشکلات کا سامنا رہے گا جب تک کہ وہ جمہوریت و پارلیمنٹ مضبوط نہیں کرتے اور منظم طریقے سے معیشت اور حکمرانی کے نظام کو از سر نو تشکیل دینے کے لئے اصلاحات نہیں لاتے۔ تباہ شدہ ویمار جمہوریہ اور آج کے پاکستان کے درمیان فرق، مارک ڈنبر کے الفاظ میں یہ ہے کہ ”مزاج کے بجائے حالات“ کو دیکھا جائے۔ پاکستان میں سیاسی طور پر غیرمعمولی اضطراب کا ماحول طاری ہے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ کسی قلیل مدتی حل کی بجائے حالات دائمی بہتری کی طرف رواں دواں ہوں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر انجنیئر خرم دستگیر خان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)