تیزرفتار انٹرنیٹ

امریکہ کی معروف ٹیک کمپنی کی جانب سے دنیا بھر میں ’سٹار لنک‘ نامی انٹرنیٹ فراہم کر دیا گیا ہے جو خلائی سیاروں کی مدد سے کسی بھی علاقے میں انٹرنیٹ کی فراہمی کر سکتا ہے تاہم اس کا استعمال خاصا مہنگا ہے۔ آج دنیا کو دیگر ضروریات کے ساتھ بلاتعطل اور تیز رفتار انٹرنیٹ کی بھی ضرورت ہے۔ انٹرنیٹ خدمات تک فوری رسائی کے لئے لو ارتھ آربیٹلز (ایل ای او) میں سیٹلائٹس سے براہ راست رابطے ممکن ہو گئے ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر، یہ نئی ٹیکنالوجی پسماندہ اور دور افتادہ علاقوں کے لئے گیم چینجر ثابت ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں سٹار لنک متعارف ہونے کا موضوع بحث کا حصہ ہے، خاص طور پر انٹرنیٹ کی مسلسل بندش کی وجہ سے ایسے بااعتماد انٹرنیٹ کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ بنیادی طور پر اس بحث نے اس وقت زور پکڑا جب ایک صارف نے پاکستان میں سٹار لنک کی فزیبلٹی کے بارے میں پوچھا، جس پر ایلون مسک نے حکومت کی منظوری حاصل کرنے کا اشارہ دیا۔ اس تبادلے نے ٹیکنالوجی اور پالیسی حلقوں میں جوش و خروش پیدا کر دیا۔ توقعات میں اضافہ کرتے ہوئے، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن نے ریگولیٹری فریم ورک کو سٹار لنک سے ہم آہنگ کرنے کے لئے جاری کوششوں کی تصدیق کی ہے، جس سے سٹار لنک جیسی ٹیکنالوجیز کے لئے پاکستان میں آسانی سے کام کرنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ سال دوہزار تیئس میں پاکستان میں براڈ بینڈ کی رسائی کی شرح 58.39 فیصد تھی جو ملک کے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر میں ترقی کی گنجائش کی عکاسی کرتی ہے۔ سٹار لنک کے تعارف میں قابل اعتماد رابطے ممکن ہو سکیں گے جس سے پاکستان کے ڈیجیٹل منظرنامے میں انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اوکلا کے سپیڈ ٹیسٹ گلوبل انڈیکس کے مطابق پاکستان موبائل انٹرنیٹ کی 
رفتار میں 111 ممالک میں سے 97 ویں اور براڈ بینڈ اسپیڈ میں 155ممالک میں سے 139 ویں نمبر پر ہے۔ اس طرح کے چیلنجوں کے باوجود آئی ٹی اور آئی ٹی سے متعلق خدمات 2023-24ء میں ملک کی برآمدی آمدنی تقریباً 3.2 ارب ڈالر تھی۔ قابل اعتماد اور تیز رفتار انٹرنیٹ تک رسائی آن لائن سرگرمیوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرسکتی ہے، ای کامرس، فری لانسنگ اور ڈیجیٹل سٹارٹ اپ میں نئے مواقع کھول سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں، ڈیجیٹل معیشت کو وسیع تر بنایا جاسکتا ہے جس سے زیادہ پختہ بنیادوں پر پائیدار ’آئی ٹی‘ صنعت کو فروغ دیا جاسکتا ہے جو عالمی مارکیٹوں (منڈیوں) کے مطابق ہو۔ سٹار لنک کی پاکستان آنے کا وعدہ ہمارے دیہی علاقوں کے لئے شہروں کی نسبت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ان علاقوں کو طویل عرصے سے انٹرنیٹ تک رسائی نہیں یا اگر رسائی ہے بھی تو انٹرنیٹ فراہمی کے نظام (بنیادی ڈھانچے) میں کمی بیشی جیسے چیلنجز کا سامنا ہے، جو شہروں اور دیہات کے درمیان بڑا فرق ہے۔ انٹرنیٹ تک رسائی تعلیم، صحت اور فری لانسنگ کے شعبوں میں تبدیلی کا کردار ادا کر سکتی ہے، جس سے شہری اور دیہی آبادیوں کے درمیان فرق کم ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں سٹار لنک کی راہ میں کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ اس تناظر میں سب سے بڑی رکاوٹ قیمت ہے۔ گلوبل پرائسنگ کے مطابق بنیادی پیکج کی ابتدائی ماہانہ فیس 35 ہزار روپے 
جبکہ اضافی ہارڈ وئر فیس ایک لاکھ دس ہزار روپے ہوگی۔ پاکستان میں موجود انٹرنیٹ کی اوسط ماہانہ لاگت تقریباً تین سے چار ہزار روپے ہے، یہ ٹیکنالوجی ممکنہ طور پر زیادہ آمدنی رکھنے والے، اعلی درجے کے افراد تک محدود ہوگی تاہم، یہ اعداد و شمار سرکاری اور نجی اداروں کی پہنچ میں ہیں، جو اسے اپنی آپریشنل کارکردگی کو بڑھانے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔ اس صورتحال کا ایک اور قابل ذکر اور زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ سٹار لنک پاکستان کی مقامی انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر (آئی ایس پی) کی صنعت کو کس حد تک متاثر کرے گا۔ تیز رفتار، کم تاخیر والی انٹرنیٹ خدمات پیش کرکے، سٹار لنک موجودہ مارکیٹ پلیئرز کو چیلنج کرنے کی صلاحیت موجود ہے، جس سے انہیں خدمات کے معیار کو بہتر بنانے، اخراجات کم کرنے اور دوسروں پر مسابقت مل سکتی ہے۔ انٹرنیٹ سروسیز کی مارکیٹ میں اس تبدیلی کا تعلق سرمایہ کاری سے بھی ہے جس سے چھوٹے ’آئی ایس پیز‘ پر بھی دباؤ پڑ سکتا ہے جو انٹرنیٹ اور مصنوعی ذہانت کے شعبوں میں تیزی سے تبدیل ہونے والی دنیا میں اپنا وجود قائم رکھنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں حکومت سٹار لنک سے مذاکرات کر کے قیمت کم کروا سکتی ہے یا پھر چین کی جانب سے ”تھاؤزنڈ سیلز“ جیسے متبادل آپشنز کو متعارف کروانے پر بھی غور ہو سکتا ہے تاکہ درس و تدریس، صحت کی دیکھ بھال اور بالخصوص زراعت کے شعبوں میں انقلاب برپا کیا جا سکے۔ سیٹلائٹ انٹرنیٹ ہی مستقبل کا انٹرنیٹ ہوگا۔ امریکہ کا سٹار لنک ہو یا چین کا ’تھاؤزنڈ سیلز‘ دونوں ہی سے انٹرنیٹ کی فراہمی کا ایک نیا دور کا آغاز ہو رہا ہے تاہم معلومات کی ان نئی صورتوں کی محتاط نگرانی اور انٹرنیٹ کے استفادے سے ابھرنے والے نت نئے مواقع تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر شذا عارف۔ ترجمہ ابوالحسن امام)