ٹرمپ: دوسرا دور اقتدار اور پاکستان

ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے 47ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے (وہ اس کے 45ویں صدر بھی تھے) اور انہوں نے متعدد ایگزیکٹو آرڈر جاری کئے ہیں، جن میں سے زیادہ تر داخلی پالیسیوں اور سیاست سے متعلق ہیں اگرچہ عمران خان کی حمایت کرنے والوں کو بہت زیادہ امیدیں ہیں کہ نئے امریکی صدر سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی میں اہم کردار ادا کریں گے لیکن اس طرح کی صورتحال کا امکان بہت کم دکھائی دے رہا ہے اور اس کا سب سے واضح اور سیدھا جواب یہ ہے کہ پاکستان ٹرمپ کی ترجیحات میں زیادہ بلند نہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران یا امریکی صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد دس ہفتوں میں کبھی بھی پاکستان کا ذکر نہیں کیا۔ انہوں نے تجارت کے بارے میں بات کی ہے اور کہا ہے کہ امریکہ میں تمام درآمدات پر محصولات عائد کئے جائیں گے۔ وہ امریکہ میں ملازمتوں کو بچانا چاہتے ہیں اور چین جیسے ممالک کو سزا دینے کے بارے میں بات کر رہے ہیں جن کے امریکہ کے ساتھ بڑے پیمانے پر تجارتی سرپلس ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ امریکی چینی مصنوعات اور خدمات کی خریداری پر چینی عوام کے مقابلے میں کہیں زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ ٹرمپ نے یوکرین اور روس، یورپی یونین اور نیٹو کے بارے میں بھی بات کی ہے اور وہ کس طرح سوچتے ہیں کہ یورپیوں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کہ امریکہ کو یورپی براعظم کی سلامتی کے لئے اپنے طور پر فنڈز فراہم کرنے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے امریکہ کے قریبی ہمسایہ ممالک میکسیکو اور کینیڈا سے درآمدات پر پچیس فیصد ٹیرف عائد کرنے کی بھی بات کی ہے اور یہاں تک کہ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو امریکہ کی 51ویں ریاست کا گورنر ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان تو دور کی بات، ٹرمپ نے کسی بھی جنوبی ایشیائی ملک کے لئے زیادہ بات نہیں کی، یہاں تک کہ بھارت کے لئے بھی نہیں۔ درحقیقت بھارت کے پاپولسٹ وزیر اعظم نریندر مودی کو ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ موصول نہیں ہوا اور بھارتی میڈیا نے خبر دی کہ مودی حلف برداری کی تقریب میں جانے کے خواہشمند تھے۔ ٹرمپ کی حلف برداری سے قبل بھارت ایچ ون بی ویزا کے عنوان سے زیربحث رہا ہے کیونکہ اس قسم کے زیادہ تر ویزے بھارت سے درخواست دہندگان حاصل کرتے ہیں۔ یہ ساری بحث ٹوئٹر (ایکس) پر ایک بھارتی نژاد امریکی ارب پتی وویک راما سوامی کے تبصرے سے جڑی ہوئی ہے جنہیں آنے والی انتظامیہ میں ایک سینئر عہدے کے لئے نامزد کیا گیا ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ ٹرمپ کی قیادت میں پینٹاگون پاکستانی فوج کے ساتھ معمول کے مطابق کام کرتا رہے گا یقیناً حالیہ برسوں میں ان تعلقات کی نوعیت کسی حد تک تبدیل ہوئی ہے، خاص طور پر افغانستان سے امریکی افواج کے انخل? کی وجہ سے تاہم، کابل میں طالبان کی حکومت مضبوطی سے قائم ہونے کی وجہ سے، امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں ممکنہ طور پر تعاون برقرار رہے گا۔امید یہی ہے کہ پاکستان کے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات ماضی کی طرح ہی ہوں گے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ پر پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا الزام لگا رکھا ہے جس سے پاکستان امریکہ تعلقات متاثر ہوئے اور اب ستم ظریفی یہ ہے کہ تحریک انصاف کے حامی اور اس کی قیادت نے ٹرمپ انتظامیہ کی حمایت کر رہی ہے اور اْن تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ وہ پاکستان کے داخلی معاملے میں مداخلت کریں! اگر پاکستان یا کوئی بھی ملک امریکہ کے ساتھ کسی حد تک مساوی بنیادوں پر دوطرفہ تعلقات کا خواہاں ہے تو اسے سب سے پہلے اپنی معیشت پر توجہ دینی ہوگی اور جب اس کے پاس ایک بڑی اور نشوونما کرتی ہوئی معیشت ہوگی تو پاکستان کا معاشی اثر و رسوخ بڑھے گا اور امریکہ کے ساتھ تعلقات برابری کی بنیاد پر آگے بڑھیں گے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عمر قریشی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)