خوشحال بچپن‘ سب کیلئے

کیا ہمارے ہاں تمام بچوں کی زندگیاں محفوظ، خوشحال اور صحت مند ہیں؟ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کے مرتب کردہ اعدادوشمار (سال 2023ء) کے مطابق پاکستان میں اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں کی آبادی ایک کروڑ 76 لاکھ 62ہزار243 ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ریاست بچوں کی نشوونما اور ان کی تربیت کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ اور ان ذمہ داریوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے کتنی پرعزم ہے؟ سال دو ہزار اٹھارہ میں‘ جب راقم الحروف پہلی مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئی‘ تو قومی اسمبلی کے چند اجلاسوں کے بعد دو مشاہدات یہ تھے کہ یہ مردوں کی جگہ ہے اور بچوں کا نہ تو ذکر کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کے مسائل و مشکلات کو تسلیم کیا جاتا ہے اور قانون ساز ایوان کے اراکین کی عوام میں دلچسپی ان لوگوں سے شروع ہوتی ہے جو ووٹ ڈالنے کی عمر رکھتے ہیں یعنی اٹھارہ سال کے ہیں۔ پارلیمنٹ سے پہلے میری زندگی کے پچیس سال پسماندہ بچوں، خاص طور پر لڑکیوں کو مساوی تعلیم فراہم کرنے کے لئے وقف رہے اور میں تسلیم کرتی ہوں کہ قومی اسمبلی میں رنگا رنگ الفاظ کے ساتھ بلند و بالا سیاسی تقاریر تو بہت ہوئیں لیکن مجھ سمیت دیگر اراکین اسمبلی بچوں کے لئے بامعنی یا ہمدردی تلاش کرنے میں 
ناکام رہے تاہم، بڑھتی ہوئی سیاسی پولرائزیشن کے باوجود، قانون سازی شروع کرنے اور بچوں سے متعلق امور پر بحث کی گئی۔ میری پہلی کوشش دسمبر 2018 میں تھی۔ جب بچوں کے حقوق سے متعلق ایک قرارداد کا مسودہ تیار کیا گیا جسے ایوان نے منظور کیا، جس میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے اور غذائی قلت کے خاتمے کے لئے اقدامات کرنے اور بچے کی زندگی کے پہلے ہزار دنوں کا عہد کرنے کے لئے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا گیا تھا۔ دوسرا قدم پائیدار ترقیاتی اہداف ٹاسک فورس میں بچوں کے حقوق پر ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دینا تھا۔ اس کے بعد ذیلی کمیٹی نے چائلڈ رائٹس کنونشن (سی آر سی) کی عینک سے خیبر پختونخوا، بلوچستان، پنجاب اور سندھ میں بچوں سے متعلق تمام قانون سازی کا جائزہ لیا۔ سال دو ہزار چوبیس تک پاکستان کے بچوں کی مایوس کن حالت پر تشویش ظاہر کرنے کی کئی کوششیں کی گئیں۔ نیشنل ایجوکیشن ایمرجنسی کا اعلان کیا گیا ملک میں تقریباً دو کروڑ ساٹھ لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں جس کے نتیجے میں نیشنل ایجوکیشن ٹاسک فورس 2024ء کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل پچیس اے میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ داری ریاست کو دی گئی ہے اور اگر یہ ذمہ داری پوری کی گئی تو کوئی بھی بچہ اسکول سے باہر نہیں ہوگا۔ اسی طرح ملک میں پولیو کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر پولیو ٹاسک فورس تشکیل دی گئی۔ سال دوہزارپچیس میں یہ تعداد بڑھ کر اکتہر ہو گئی ہے۔ شکر ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بچوں کے حقوق کے لئے خصوصی پارلیمانی شعبے (کاکس) کو فعال بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بچوں کے حقوق سے متعلق قومی کمیشن 2020ء سے کام کر رہا ہے۔ چند روز قبل وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت نے اسلام آباد میں بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا جس کا عنوان تھا ”مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم: چیلنجز اور مواقع۔“ پینتالیس ممالک کے وفود نے اس کانفرس میں شرکت کی اور تیرہ مسلم اسکالرز نے اس موضوع پر اظہار خیال کیا۔ پاکستان میں تاحال بچوں کے حقوق اور ان کی 
فلاح و بہبود سے متعلق قوانین پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بچوں کے حقوق کی طرف توجہ مبذول کروانے کے لئے وقتاً فوقتاً کانفرنسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے بنیادی بات یہ ہے کہ حکومت بچوں کی تعلیم، صحت، حفاظتی ٹیکوں، غذائی قلت، کمزور نشوونما اسٹنٹنگ (لاغرپن) وغیرہ کے لئے حسب ضرورت مالی وسائل مختص نہیں کر رہی جبکہ ضرورت زیادہ بجٹ مختص کرنے کی ہے۔ بچوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لئے مضبوط اقدامات کی ضرورت ہے جبکہ بچوں کی ذہنی صحت، امنگوں، شہریت، پرورش، کردار سازی اور سماجی و جسمانی ترقی کے مواقع بھی فراہم کرنے ہیں جو فی الوقت دور کی حقیقت معلوم ہو رہی ہے۔ پاکستان کی متنوع حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے قومی بحث طویل عرصے سے زیر التواء ہے کہ اگر تمام بچوں کے لئے خوشحال و خوشگوار بچپن کی بات کی جاتی ہے تو اس مطالبے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ وقت ہے کہ بچوں کو بھی نوجوان انسان کے طور پر دیکھا جائے۔ اس سلسلے میں پہلا اقدام یہ ہونا چاہئے کہ ریاست خود کو بچوں کے حقوق کے لئے ذمہ دار سمجھے اور بچوں کو درپیش مسائل و مشکلات اور ان کی بہبود و خوشحالی میں فکری و مالی سرمایہ کاری کی جائے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر مہناز اکبر عزیز۔ ترجمہ ابوالحسن امام)