غریب قوم، شاہانہ رہن سہن

ایک سوال جو ہر سوچ سمجھ رکھنے والے ذہن میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا ہم (پاکستانی) ایک ترقی یافتہ قوم ہیں یا ہم ترقی پذیر قوم ہیں یا پھر ہمیں غریب قوم قرار دیا جانا چاہئے کیونکہ حال ہی میں اور بار بار ہم بمشکل مالیاتی طور پر دیوالیہ (ڈیفالٹ) ہونے سے بچنے میں کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ کیا ایک قوم جس کے دو کروڑ ساٹھ لاکھ (چھبیس ملین) بچے اسکول نہ جاتے ہوں اور جس کی کم سے کم چالیس  فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو تو کیا وہ فضول خرچ ہونی چاہئے؟ پاکستان کی ضرورت ایسا اجتماعی لائحہ عمل اپنانے میں ہے جس سے معاشی ترقی ہو۔ کوئی شخص خالی پیٹ نہ سوئے۔ حکومت‘ اشرافیہ اور عوام کا رہن سہن ایک دوسرے سے مختلف نہ ہو۔ اگر ہم واقعی غریب یعنی ترقی پذیر قوم ہیں تو ہمارے حکمران طبقات کا طرز زندگی اس کے بالکل برعکس نہیں ہونا چاہئے۔ اراکین پارلیمنٹ اور ججوں کی تنخواہوں اور مراعات میں زبردست اضافے کی رپورٹ اس وقت عوام کے ذہنوں میں تازہ ہو گئی جب ایف بی آر کی جانب سے فیلڈ اسٹاف کے لئے ہونڈا سٹی گاڑیاں خریدنے کے فیصلے کی خبریں شہ سرخیوں میں آئیں۔ ان گاڑیوں میں نیوی گیشن سسٹم، ریورس کیمرہ، ہائی گریڈ انٹیریئر، چار فری پیریڈک مینٹیننس، چار سال یا ایک لاکھ کلومیٹر توسیعی وارنٹی کے علاؤہ ایف بی آر کے عملے اور افسران کو ٹریکنگ سسٹم استعمال کرنے کی تربیت دینے سمیت جدید فیچرز فراہم کئے جائیں گے۔ مضحکہ خیز ہے کہ ٹیکس دہندگان کی رقم سے خریدی جانے والی اِن گاڑیوں کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ حکام اِن گاڑیوں میں بیٹھ کر ’ٹیکس چوروں‘ کا پیچھا کریں گے اور انہیں پکڑا جائے گا کیونکہ وہ ملک کے معاشی دشمن ہیں۔ ٹیکس دہندگان نے ٹیکس چوروں کو پکڑنے کے بہانے نئی گاڑیاں خریدنے کے ایف بی آر کے فیصلے پر شدید تنقید کی ہے جبکہ ایف بی آر حکام نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ  پرتعیش گاڑیاں صرف سرکاری فرائض کی انجام دہی کے لئے استعمال ہوں گی۔ عوام جانتے ہیں کہ کس طرح سرکاری گاڑیوں کا غلط استعمال افسران اور ان کے اہل خانہ کرتے ہیں۔ عام طور پر، ایک ایس یو وی یا لگژری اسٹاف کار بڑے باس کے لئے ہوتی ہے، دوسری گاڑی اس کے خاندان کے لئے ہوتی ہے اور پھر ایک گاڑی روزمرہ کے گھریلو کام کاج سرانجام دینے کے لئے رکھی جاتی ہے یعنی بہت بڑی گاڑی‘ بڑی گاڑی اور ایک عدد چھوٹی گاڑی رکھنا افسرشاہی کا معمول ہے۔آخر یہ ٹیکس چور کون ہیں جو دکھائی نہیں دیتے؟ کیا ہم لوگوں کے رہن سہن کو دیکھ کر اندازہ نہیں لگا سکتے کہ وہ کس قدر آمدنی رکھتے ہیں اور انہیں کس قدر انکم ٹیکس ادا کرنا چاہئے؟ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ چوبیس کروڑ سے زائد آبادی والے پاکستان میں تقریبا 72 لاکھ رجسٹرڈ ٹیکس فائلرز ہیں جن میں سے صرف 25 لاکھ فعال ٹیکس فائلرز ہیں۔ رواں سال (دوہزار پچیس) کے ماہ جنوری میں فعال ٹیکس دہندگان کی تعداد 59 لاکھ تک پہنچ گئی تھی لیکن یہ بھی ناکافی ہے۔ جو لوگ حکومت کو انکم ٹیکس ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ اسے ادا کرنے سے کیوں گریز کر رہے ہیں؟ یہ ان کی غلطی نہیں کیونکہ یہ حکومتی اداروں کی طرف سے ان کو ملنے غیراعلانیہ چھوٹ کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے قومی آمدنی کا بڑا حصہ جو بصورت ٹیکس وصول ہونا چاہئے تھا لیکن وہ کھلم کھلا چوری ہو رہا ہے۔اراکین پارلیمنٹ اور ججوں کی تنخواہوں میں غیر معمولی اضافہ اور اب ایف بی آر کے گریڈ اٹھارہ کے افسران کے لئے ایک ہزار سی سی سے زیادہ طاقت والی موٹر گاڑیوں کی خریداری عوام کے پیسے کے غلط استعمال کی واضح مثالیں ہیں۔ کیا دیگر ترقی پذیر یا ترقی یافتہ ممالک میں عوامی ٹیکسوں کا اِس طرح غیر ضروری اور غیرترقیاتی اخراجات کے لئے استعمال ہوتا ہے؟ حال ہی میں وفاقی وزیر خزانہ نے مختلف وزارتوں کے منسلک (ذیلی) محکموں میں ڈیڑھ لاکھ خالی آسامیوں کو ختم کرنے کے حکومتی منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ ایک بار پھر آئی ایم ایف کے مطالبے پر حکومت اپنے سالانہ اخراجات کو موجودہ 880 ارب روپے کی سطح سے کم کرنے پر مجبور ہوئی جو وزارتوں اور اس سے منسلک محکموں پر باقاعدگی سے ضروری سمجھتے ہوئے خرچ کئے جاتے ہیں۔ مالی سال 2024 ء کے پہلے چھ ماہ (جولائی تا دسمبر) کے دوران سرکاری اداروں کو 408 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ 2014ء سے دسمبر 2024ء تک مجموعی نقصانات 5.9 کھرب روپے تھے۔ سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ غریب پاکستانی غیر قانونی طور پر سفر کرنے والی کشتیوں کے ذریعے غیر ملکی ساحلوں پر اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ پاکستان کے معاشی حالات خراب ہیں۔  (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر افتخار اے خان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

عوام کو بیرونی ممالک ملازمتوں کی صورت روزگار کی تلاش کرنا پڑ رہی ہے جبکہ اندرون ملک فیصلہ ساز اور حکومتی ادارے سرکاری عہدوں کا غلط استعمال کرتے ہوئے ٹیکس کی رقم اپنی آسائش و سہولت پر خرچ کر رہی ہے‘ جو کھلا تضاد ہے۔