ماحولیاتی عالمی بحران ماحول

ایک ایسے وقت میں جب دنیا موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات کا سامنا کر رہی ہے‘ 2025ء کا آغاز واضح یاد دہانی کے ساتھ ہوا ہے کہ گزشتہ سال گرم ترین تھا اور اس خطرناک سنگ میل نے سائنسی انتباہات کو روزمرہ کی حقیقتوں میں تبدیل کر دیا ہے‘ جس کی وجہ سے جنگلات کی آگ‘ مہلک سیلاب اور ریکارڈ توڑ ہیٹ ویو دیکھی گئی۔ اس ماحولیاتی عالمی بحران کے دوران امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے دوسری بار پیرس ماحولیاتی معاہدے سے دستبرداری کے فیصلے نے بین الاقوامی کوششوں کو جھٹکا دیا ہے کیونکہ امریکہ کے اس فیصلے سے عالمی سطح پر تحفظ ماحول کی اجتماعی کوششیں کمزور ہوں گی۔ خاص طور پر پاکستان جیسے کمزور ممالک کیلئے یہ صورتحال تباہ کن ہے کیونکہ پاکستان پہلے ہی ماحولیاتی توازن بگڑنے سے پیدا ہونے والی افراتفری کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ پاکستان کیلئے پیرس معاہدہ کسی دوسرے عالمی معاہدے سے زیادہ بڑھ کر ہے جسے پاکستان کی ’لائف لائن‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ داری رکھتا ہے لیکن اسکے باوجود موسمیاتی اثرات کا غیر متناسب بوجھ برداشت کر رہا ہے۔ امریکی انخلا نے پیرس معاہدے کی صورت پیش کردہ امید کو خطرے میں ڈال دیا ہے‘ جس سے کرہ ارض کے درجہ حرارت کو 
محدود کرنے اور ماحولیاتی انصاف کے حصول کا عزم شکوک و شبہات سے دوچار ہو چکا ہے۔ اس سے ایک خطرناک اشارہ یہ بھی ملتا ہے کہ دنیا کا دوسرا بڑا تاریخی اخراج کرنیوالا ملک (امریکہ) اپنی اخلاقی اور عملی ذمہ داریوں سے دستبردار ہو رہا ہے اور پاکستان جیسے ممالک کو آب و ہوا کی وجہ سے پیدا ہونیوالے بحرانوں سے نمٹنے کیلئے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ کا یہ جواز کہ پیرس معاہدہ غیر منصفانہ ہے جبکہ چین جیسے ممالک کو اس سے فائدہ پہنچ رہا ہے‘ نظرثانی کا متقاضی ہے۔ آب و ہوا کی یہ تبدیلی قومی سرحدوں یا معیشتوں سے بالاتر ہے۔ کیلی فورنیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ جنوبی ایشیا کو تباہ کرنے والے سیلاب‘ ہیٹ ویو اور خشک سالی سے جڑی ہوئی ہے۔ کراچی کے ساحلی علاقوں کیلئے بڑھتے ہوئے سمندر میامی اور وینس کو درپیش چیلنجز کی عکاسی کر رہے ہیں لیکن اس سب کے باوجود‘ امریکہ کی قیادت بحرانوں کا ادراک نہیں کر رہی۔ جنوبی ایشیا کے ممالک جو پہلے ہی شدید مون سون اور طویل خشک سالی کا سامنا کر رہے ہیں‘ اس طرح امریکہ کے رویئے سے زیادہ متاثر ہونگے اور لاکھوں لوگوں کیلئے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان خود کو نازک موڑ پر تنہا کھڑا محسوس کر رہا ہے۔پاکستان کو عالمی طاقتوں کے اقدامات کا انتظار کرنے کی بجائے اپنا لائحہ عمل خود وضع کرنا چاہئے اور اس سلسلے میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ذریعے ہونیوالی تعمیر و ترقی پر نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ ممکنہ طور پر ”سبز تبدیلی“ کی بنیاد رکھی جا سکے۔ سی پیک‘ جسے اکثر پاکستان کی ترقیاتی حکمت عملی میں ”ریڑھ کی ہڈی“ جیسا کلیدی قرار دیا جاتا ہے‘ بنیادی ڈھانچے اور توانائی کے منصوبوں میں نمایاں پیشرفت کر چکا ہے‘ پنجاب میں قائد اعظم سولر پارک اور سندھ میں ونڈ فارمز قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری کی مثالیں ہیں تاہم‘ ان کوششوں کو اب وسیع تر ویژن میں تبدیل ہونا ہوگا جسے سی پیک ٹو پوائنٹ زیرو بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس اگلے مرحلے میں ترقی کے ساتھ استحکام کو بھی ترجیح دی جانی چاہئے‘ چین کی تکنیکی مہارت اور مالی وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو کم کاربن والی معیشت کی طرف منتقلی کے عمل کو تیز کرنا ہوگا۔ شمسی‘ ہوا اور پن بجلی کے منصوبوں میں 
توسیع کے ذریعے‘ پاکستان درآمد شدہ ایندھن پر اپنا انحصار کم کر سکتا ہے‘ جس سے ہوا کا معیار بہتر ہوگا اور سبز ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ یہ سب کوششیں ایک ایسے پاکستان کیلئے ہونی چاہئیں جہاں دیہی آبادی سستے سولر پینل سے چلتی ہو‘ جہاں شہری مراکز چینی جدت طرازی کیساتھ تیار کردہ الیکٹرک بسوں اور ٹرینوں پر انحصار کرتے ہوں اور جہاں زرعی نظام آب و ہوا سے متعلق اسمارٹ طریقوں کے ذریعے بے ترتیب موسمی نمونوں کیلئے لچک رکھتا ہو۔ یہ تصورات نہ صرف قابل عمل ہیں بلکہ ضروری بھی ہیں۔ زرعی شعبہ پاکستان کی تقریباً چالیس فیصد افرادی قوت کو روزگار فراہم کر رہا ہے اور جی ڈی پی میں بھی اس کا اہم کردار ہے تاہم یہ شعبہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نشانے پر ہے۔ طویل خشک سالی‘ بارش کے بدلتے ہوئے پیٹرنز اور شدید موسمی حالات غذائی تحفظ اور دیہی معاش کیلئے خطرہ ہیں۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو آب و ہوا سے متعلق اسمارٹ زرعی طریقوں جیسے درست آبپاشی‘ خشک سالی کیخلاف مزاحمت کرنے والی فصلوں کی اقسام اور زرعی جنگلات پر مبنی حکمت عملی کو اپنانا ہوگا۔ بلین ٹری سونامی جیسے جنگلات کی بحالی کے اقدامات پائیدار‘ ملک گیر کوششوں میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر سوہا ناصر۔ ترجمہ ابوالحسن امام)