ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اعلان کردہ سیاسی اور معاشی اقدامات نے یہ تاثر پیدا کیا ہے کہ دنیا ایک تحفظ پسندی اور شدید سیاسی رقابت کے دور میں واپس آ رہی ہے جس سے نہ صرف واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تجارتی جنگ چھڑنے کا امکان ہے بلکہ واحد سپر پاور اور اس کے روایتی مغربی اور غیر مغربی اتحادیوں کے درمیان خلیج بھی پیدا ہوگی۔ ایسا لگتا ہے کہ نئے امریکی صدر کے سخت اعلانات نے کاروبار اور مالیات کی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور بہت سے لوگ سانس روک کر اگلے اقدام کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان اقدامات پر اتحادیوں اور دشمنوں کی جانب سے یکساں طور پر سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ چین جوابی حملے کی تیاری کر رہا ہے جبکہ یورپی ممالک جوابی اقدامات پر غور کر رہے ہیں تاکہ یہ واضح پیغام دیا جا سکے کہ اس طرح کے اقدامات کا جواب نہیں دیا جائے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ اور ان کے ساتھی داخلی سے لے کر علاقائی اور بین الاقوامی تک ہر محاذ پر مقابلہ کر رہے ہیں۔اقتصادی محاذ پر ری پبلکن رہنما یورپی یونین کو امریکی ٹیک کمپنیوں کو نقصان پہنچانے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کے مالک نومنتخب صدر کے پرجوش حامی ہیں۔ مالیاتی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں امریکی کمپنیوں سے ہونے والی آمدنی یورپی یونین کے ساتھ ساتھ کینیڈا جیسے دیگر ممالک کو بھی منتقل ہوگی لہٰذا ٹرمپ کی پالیسیاں، جنہیں بہت سے لوگ انتقامی سمجھتے ہیں کا مقصد یورپ کی صنعتوں، خاص طور پر آٹو انڈسٹری کو نقصان پہنچانا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ امریکہ یورپی یونین آٹوموٹو تجارت یورپی آٹوموٹو صنعت کی کامیابی کا اہم ستون ہے۔ مثال کے طور پر‘ سال دوہزارتیئس میں یورپی کار مینوفیکچررز نے امریکہ کو 56 ارب یورو کی گاڑیاں اور فاضل پرزہ جات آلات برآمد کئے، جو یورپی یونین کی کل آٹوموٹو برآمد ی قیمت کا بیس فیصد ہیں۔ یہ واضح طور پر اشارہ ہے کہ امریکہ یورپی یونین کی تیار کردہ کاروں کی بڑی منڈی (برآمدی منزل) ہے، جس سے اِس صنعت کو ٹرمپ کے دوسرے دور کی انتظامیہ کی طرف سے ٹیرف جیسے خطرات کا سامنا ہے۔یورپی یونین کے لئے یہ اہم مسئلہ ہے، جو (کل عالمی برآمدات کا 24.8 فیصد اور 23.8 فیصد درآمدات) کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے لیکن جس چیز کو جاننے کی ضرورت ہے وہ امریکی مارکیٹ پر اس کا انحصار ہے، جو ہمیشہ یورپی یونین کے حق میں رہا ہے۔ سال دوہزارتیئس میں‘ یورپی یونین خدمات کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا تاجر تھا۔ اس کی خدمات کی برآمدات کی مالیت تیرہ سو چالیس ارب یورو اور اس کی درآمدات 1771 ارب یورو تھیں لیکن اس سب کے باوجود بھی یہ یورپی یونین کے لئے ایک چھوٹا مسئلہ نہیں۔پاناما کینال کا کنٹرول واپس لینے کی ٹرمپ کی خواہش جھوٹے دعوؤں پر مبنی ہے۔ ناقدین کا دعویٰ ہے کہ دائیں بازو کے سیاستدان بے بنیاد مبالغہ آرائی اور صریح جھوٹ بولتے ہیں۔ لاطینی امریکی ملک نے ٹرمپ کے اس دعوے کو بھی بے بنیاد قرار دیا ہے کہ امریکہ سے زیادہ رقم وصول کی جا رہی ہے۔ درحقیقت یہ آبی راستہ، جو ہر سال سینکڑوں ارب ڈالر کی تجارت کی سہولت فراہم کرتا ہے، بین الاقوامی تجارت کے لئے مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور پاناما کی علاقائی تجارتی مرکز کے طور پر حیثیت بھی یکساں اہم ہے۔ کونسل آن فارن ریلیشنز میں حال ہی میں شائع ہونے والے ڈیانا رائے کے ایک مضمون کے مطابق ”اکیاون میل لمبی نہر بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کو جوڑتی ہے اور ایک اہم عالمی سمندری گزرگاہ ہے۔ جہازوں کو جنوبی امریکہ کے جنوبی ترین سرے کے ارد گرد طویل سفر کو بائی پاس کرنے کی سہولت دے کر، یہ نہر شپنگ کے وقت اور لاگت دونوں کو نمایاں طور پر کم کرتی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عبدالستار۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
ہر سال تیرہ ہزار سے زیادہ بحری جہاز، جو عالمی تجارت کا پانچ سے چھ فیصد کے درمیان نمائندگی ہیں اِس نہر سے گزرتے ہیں۔ یہ نہر ہمیشہ سے امریکہ کے لئے اہمیت کی حامل رہی ہے۔ رائے کہتے ہیں کہ یہ نہر امریکہ اور پاناما دونوں کی معیشتوں کے لئے اہم ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اس نہر کا سب سے بڑا استعمال کنندہ ہے، جس میں سالانہ تمام امریکی کنٹینر ٹریفک کا تقریباً چالیس فیصد اس سے گزرتا ہے۔ دریں اثنا 2024ء میں اس نہر سے ہونے والی آمدنی پاناما کی مجموعی گھریلو پیداوار کا تقریبا چار فیصد تھی۔ آبی شاہراہ کے دیگر بڑے صارفین میں چلی، چین، جاپان اور جنوبی کوریا شامل ہیں۔ اس نہر نے چین کو بہت فائدہ پہنچایا ہے، جس سے اسے پاناما کے ساتھ تعلقات کو گہرا کرنے میں مدد ملی ہے۔ درحقیقت یہ پاناما اور خطے کے ساتھ چین کے بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات ہیں جنہوں نے عالمی شپنگ اور بندرگاہ کے آپریشنز میں بیجنگ کے وسیع تر کردار کے بارے میں امریکی خدشات کو بڑھاوا دیا ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کے لئے ٹرمپ پاناما کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کا مقصد نہ صرف پاناما بلکہ لاطینی امریکہ کی دیگر ریاستوں کو بھی پیغام دینا ہے۔ مثال کے طور پر لاطینی امریکہ اسٹڈیز کے سی ایف آر فیلو ول فری مین کا خیال ہے کہ ری پبلکن صدر ”پاناما سے ایک مثال قائم کر رہے ہیں جس کا مقصد دیگر علاقائی رہنماؤں کو بیجنگ کے ساتھ تعلقات گہرا کرنے کے لئے جرأت مندانہ قدم اٹھانے سے پہلے دو بار سوچنے پر مجبور کرنا ہے۔گرین لینڈ کے بارے میں ٹرمپ کا بیان واحد سپر پاور کے تجارتی اور دیگر مفادات پر مبنی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ کئی دہائیوں سے آٹھ نام نہاد آرکٹک ممالک کینیڈا، ڈنمارک، فن لینڈ، آئس لینڈ، ناروے، سویڈن، روس اور امریکہ خطے کے وسائل پر حکمراں بنے ہوئے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ خطے کی معدنی دولت ٹرمپ کو امریکی پالیسی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے فسادیوں کے لئے معافی ان کے انتہا پسند قوم پرست ہمدردوں کو یہ پیغام دیتی ہے کہ اگر وہ پاپولسٹ رہنما کی خاطر اپنی زندگیوں، کیریئر اور مستقبل کو خطرے میں ڈالیں گے تو انہیں اکیلا نہیں چھوڑا جائے گا۔ اس طرح کے اقدامات کا مقصد افراط زر، بڑھتی ہوئی غربت، بے گھری اور عام امریکیوں پر بڑھتے ہوئے قرضوں کے بوجھ جیسے اہم مسائل سے توجہ ہٹانا بھی ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔