ثمرآور نتائج بھی ضروری ہیں 

خیبرپختونخوا حکومت نے صحت کارڈ سکیم کے تحت سہولیات کے دائرے کو مزید وسعت دیتے ہوئے اس میں شعبہ بیرونی مریضاں یعنی او پی ڈی میں حاصل ہونے والی سروسز کو بھی شامل کر دیا ہے‘ وزیر اعلیٰ سردار علی امین گنڈاپور نے گزشتہ روز بتایا کہ خدمات کا دائرہ وسیع ہونے پر ادویات‘ ٹیسٹ اور میڈیکل سہولیات فری ہوں گی اس ضمن میں پائلٹ پراجیکٹ مردان سے شروع ہوگا دوسرے مرحلے میں چترال کوہاٹ اور ملاکنڈ کے اضلاع شامل ہونگے اعدادوشمار کے مطابق صرف4 اضلاع جب اس سروس کے دائرے میں آئینگے تو ان میں ایک لاکھ بیس ہزار خاندان یہ خدمات حاصل کر سکیں گے صحت کارڈ بلاشبہ ایک میگاپراجیکٹ ہے صوبے کی حکومت اس کارڈ کے تحت سروسز میں اضافہ بھی کرتی جارہی ہے جبکہ ابتداء میں انشورنس کمپنی کو ادائیگی میں جو دشواریاں رہیں وہ بھی اب قابو میں آچکی ہیں‘ ہیلتھ سیکٹر میں صوبے کی حکومت متعدد دیگر اقدامات بھی اصلاح احوال کے زمرے میں اٹھاچکی ہے اس سے قبل بھی یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنے والی تقریباً ہر حکومت صحت کے شعبے میں اصلاحات کو اپنی اپنی ترجیحات میں سرفہرست ہی قرار دیتی رہی ہے اس ضمن میں بہتری کیلئے کم اور زیادہ کے فرق سے اقدامات اٹھائے بھی جاتے رہے ہیں انفراسٹرکچر میں بھی توسیع کاکام وقت کیساتھ جاری ہی ہے اس سب کیساتھ سرکاری علاج گاہوں میں انتظامی حوالے سے تجربات کا لامتناعی سلسلہ بھی جاری ہے اس سب کے باوجود اس تلخ حقیت سے چشم  پوشی کی کوئی گنجائش نہیں کہ عوام کو علاج کیلئے معیار کے مطابق سروسز نہ ملنے کا گلہ موجود ہے‘ مریضوں کی بڑی تعداد اب بھی نجی ہسپتالوں اور کلینکس کا رخ کرتی ہے اور میڈیکل سروسز کی فراہمی کیلئے نجی شعبے میں علاج گاہوں کی تعمیر اب ایک بڑی سرمایہ کاری بھی بن چکی ہے‘ عوام کو سرکاری علاج گاہوں میں خدمات نہ ملنے کا گلہ دیگر بہت سارے اقدامات اور وسائل کی فراہمی کیساتھ صرف چیک اینڈ بیلنس کے محفوظ انتظام کیساتھ بھی دور کیا جاسکتا ہے‘ اسکے ساتھ نجی شعبے میں ہیلتھ سیکٹر کیلئے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی بھی ناگزیر ہے تاکہ اچھے اور معیاری ادارے قائم ہوں‘ ساتھ اس سیکٹر میں چارجز اورمعیار کو قاعدے قانون کا پابند بنانا بھی ضروری ہے سرکاری علاج گاہوں میں بنیادی مراکز سے لیکر تحصیل اور اضلاع کی سطح پر شفاخانوں کی فعالیت بھی ناگزیر ہے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔