دنیا میں ہونے والے مختلف معاملات پر ایک نظر دوڑائیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ انصاف اور ناانصافی ظالم اور مظلوم کے درمیان جنگ جاری ہے ایک نہ ختم ہونے والی جنگ۔ اس کالم کے محدود حجم کے پیش نظر ہم اس کالم کے عنوان پر تفصیل سے نہیں لکھ سکتے پر درج ذیل سطور میں ہم کوشش ضرور کریں گے کہ اپنے قارئین کے ساتھ چند چیدہ چیدہ حقائق شئیر کر لیں‘پرانے زمانے میں جزیرہ نما بلقان کا سب سے جنوبی علاقہ اسپارٹاکہلاتا تھا یہ خالص زرعی خطہ تھا اور وہاں کے بسنے والوں کا بنیادی پیشہ کھیتی باڑی تھا‘اسپارٹا کی سماجی اصلاحات کا تذکرہ ہمیں سب سے پہلے بابائے تاریخ ہیروڈوٹس کی تصنیف تاریخ میں ملتا ہے‘کئی مورخین کا خیال ہے کہ اسپارٹا کے آئین اور قوانین کا کوئی ایک شخص مصنف نہیں تھا بلکہ مختلف افراد نے مختلف ادوار میں یہ خدمت سر انجام دی ہے البتہ اصلاح کی ابتدا ء لائی کرگس نے کی تھی جس وقت لائی کرگس اتالیق مقرر ہوا تو اسپارٹا کی زمین چند خاندانوں کی ملکیت تھی‘بقیہ لوگ بطور مزارعین اور ہاریوں کی مانند کھیتوں میں کام کرتے تھے زمین پر ان کا کوئی حق نہ تھا لائی کرگس نے زمین کے 39 ہزار مساوی ٹکڑے کئے اور ان ٹکڑوں کو مساوی کاشتکاروں میں بانٹ دیا‘لائی کرگس نے امراء کی غیر منقولہ جائیداد‘ سونا‘چاندی‘ زیورات وغیرہ بھی زمین کی طرح لوگوں میں مساوی تقسیم کرنے کی کوشش کی لیکن اسے کامیابی نہ ہوئی چنانچہ اس نے ایک نیا حربہ استعمال کیا‘ اس نے چاندی اور سونے کو بہ حیثیت زر استعمال کرنے کی ممانعت کر دی‘ یعنی کوئی بھی شخص سونے یا چاندی کے بدلے کوئی چیز فروخت یا خرید نہ سکتا تھا‘ان قیمتی دھاتوں کی جگہ اس نے لوہا رائج کر دیا اور اس کی قدر بھی بہت گھٹادی چنانچہ پانچ سو روپے کی مالیت کا سونا رکھنے کے واسطے بھی ایک پورا کمرہ درکار تھا‘ اتنا وزنی لوہا چور اٹھا کر نہیں لے جاسکتے تھے‘نہ رشوت میں دیا جا سکتا تھا‘لوہے کو زر مبادلہ بنانے اور سونے اور چاندی کی خرید و فروخت روک دینے سے قیمتی دھاتوں کی نہ صرف معاشرے میں وقعت گر گئی‘سونا اور چاندی جو دولت اور عزت کی علامت سمجھے جاتے تھے‘لوگوں کی نظر میں اپنا وقار کھو بیٹھے‘کبھی کبھی خیال آ تا ہے کہ وطن عزیز میں بھی اگر امیروں اور غریبوں کے درمیاں بڑھتی ہوئی خلیج کم نہ ہوئی اور یہاں بھی تنگ آ مد بجنگ آ مد لائی کرگس جیسا کوئی لیڈر بر سر اقتدار آ گیا تو اس ملک کے وہ کرپٹ افراد کیا کریں گے کہ جنہوں غیر قانونی طریقوں سے کھربوں روپے سمیٹے ہوئے ہیں۔آیئے اب ذکر ہو جائے پشاور ان سپوتوں کا جنہوں نے کھیل کے میدانوں میں پاکستان کا نام روشن کیا۔
پشاور کے نواحی علاقے نواں کلے میں 110سال پہلے 1914 ء میں پیدا ہونے والے ہاشم خان کا کس کو پتہ تھا کہ وہ 7 مرتبہ برٹش اوپن سکواش چیمپئن بنے گا جو دنیائے سکواش کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ شمار ہوتا ہے‘وہ پشاور کلب کے سکواش کورٹ میں بطور بال بوائے ball boy بھرتی ہوا‘ فرنگیوں کا دور تھا اس زمانے میں وہاں گورے کھیلنے آتے‘ایک مرتبہ اس کو ایک گورے کے ساتھ کھیلنا پڑا‘جسے اس نے مات دے دی‘اس نے اس کے اندر چھپے ہوئے سکواش کھلاڑی کے ٹیلنٹ کو بھانپ لیا اور اسے موقع فراہم کر دیا کہ وہ بمبئی میں ہونے والے ایک سکواش ٹورنامنٹ میں حصہ لے جو ہاشم خان نے جیت لیا اس کے بعد تو جیسے اس کی قسمت جاگ اٹھی‘قیام پاکستان کے بعد وہ پی اے ایف کے تحت ہونے والے سکواش ٹورنامنٹ کے میچوں میں حصہ لینے لگا اور انجام کار اسے حکومت نے برٹش اوپن سکواش چیمپئن شپ میں پاکستان کی نمائندگی کے لئے لندن بھجوایا‘اس نے سات مرتبہ اس چمپئین شپ کو جیت کر ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا جو آج تک قائم ہے‘ہاشم خان کے دیکھا دیکھی اس کے بھائی اعظم خان اور روشن خان نے بھی دنیائے سکواش میں زبردست نام کمایا اور روشن خان کے بیٹے جہانگیر خان نے بھی اپنے آ باء و اجداد کی طرح سکواش کی دنیا پر ایک لمبے عرصے تک اپنی گرفت قائم رکھی‘ ان ہی کے گاؤں سے تعلق رکھنے والے کئی اور کھلاڑی بھی سکواش کی دنیا کے افق پر ایک لمبے عرصے تک چمکتے رہے۔