لمبی عمر کی تمنا کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہاں اگر یہ تمنا کی جائے کہ خدا اچھی صحت کےساتھ لمبی عمر دے تو کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس ملک میں بلکہ دنیا بھر میں شاذہی کوئی ایسا انسان ہو کہ جو چالیس سال کی عمر کے بعد کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا نہ پایا گیا ہو‘ کسی کو شوگر ہو جاتی ہے تو کسی کو گردے کی تکلیف کسی کوبلڈپریشر ہو جاتا ہے تو کسی کی آنکھوں میں موتیا اترآتا ہے کوئی عارضہ قلب میں مبتلا ہو جاتا ہے توکوئی کینسر میں‘ مختصر یہ کہ ہر انسان چالیس برس کے بعد کسی نہ کسی دوائی کی بیساکھی کے سہارے چل کر اپنی باقی زندگی گزارتا ہے اور کسی وجہ سے اگر کوئی انسان اچھا علاج معالجہ کرنے کے قابل نہیں ہوتا تو وہ چالیس سے پہلے ہی لقمہ اجل ہو جاتا ہے اسی لئے اکثر بزرگوں کو ہم نے یہ دعا کرتے سنا کہ خدا ہمیں چلتا پھرتا اس دنیا سے اٹھا لے‘ تجربہ بتاتا ہے کہ بیماری میں مبتلا بوڑھوں کو کوئی بھی منہ نہیں لگاتا اور تو اور ان کی سگی اولاد بھی ایک دن ان سے تنگ آ جاتی ہے اس صورت میں لاچار اور نادار بوڑھے پھر اپنی موت کی خود دعا مانگتے ہیں‘ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ عمر رسیدہ انسان کہ جن کی اولاد کبیر سنی میں ان کا دھیان رکھتی ہے‘ایسی اولاد ہمارے مشرقی معاشرے میں موجود ہے پر وہ معدودے چند ہے سوویت یونین کے ایک سابق وزیراعظم خروشیف نے اپنی کتاب میں ایک روسی کہاوت لکھی ہے جو کچھ یوں ہے کہ عمر تقسیم کی جارہی تھی انسان کے حصے میں صرف 25 برس آئے اور مختلف جانوروں کو جو عمر ملی وہ انسان کی عمر سے زیادہ تھی‘ انسان نے قدرتی طور پر نالا ں ہونا تھا اس نے التجا کی کہ اس کی عمر میں اضافہ کر دیا جائے اسے جواب ملا کہ چونکہ عمر تقسیم ہو چکی لہٰذا وہ وہ مختلف جانوروں سے پوچھے اور اگر وہ اسے اپنی عمر میں سے کچھ سال انسان کو دینے کےلئے تیار ہوں تو وہ اس کی عمر کےساتھ شامل کر دیئے جائیں گے۔
چنانچہ انسان سب سے پہلے گھوڑے کے پاس گیا اور اس سے درخواست کی کہ وہ اپنی عمر میں سے کچھ حصہ اس کے نام لکھ دے گھوڑے نے خوشی خوشی اپنی عمر میں سے پچیس برس انسان کے نام لکھ دیئے انسان پھر بھی مطمئن نہ تھا چنانچہ وہ کتے کے پاس گیا اور اس سے اسی قسم کی درخواست کی وہ بھی اپنی عمر میں سے پچیس برس انسان کو دینے کےلئے تیار ہو گیا اس کے بعد انسان بندر کے پاس گیا اور اس کی منت زاری کی کہ وہ بھی اسے اپنی عمر میں سے کچھ سال لکھ دے بندر نے بھی اسے مایوس نہ کیا اور اپنی عمر میں سے 25 سال انسان کو دے دیئے اس طرح انسان خوش ہوگیا کہ ان تین جانوروں نے اسے جو پچیس پچیس برس دیئے ہیں ان کی وجہ سے دنیا میں اب وہ سو سال تک جی سکے گا اس کہاوت میں آگے چل کر یہ درج ہے کہ انسان نے شکریہ ادا کیا کہ چونکہ ان تین جانوروں نے اپنی عمر میں سے پچیس پچیس سال اسے دے دیئے ہیں لہٰذا اب دنیا میں وہ سو سال زندہ رہنے کے قابل ہو گیا ہے‘ لیکن اسے بتاےاگےا کہ یہ بات اپنے پلے باندھ لو کہ تم صرف پچیس سال انجوائے کرسکوگے کہ وہ بے فکری کی زندگی ہوگی اگر تم 25 سے 50 سال تک موت سے بچ گئے اور زندہ رہے تو تمہیں گھوڑے کی طرح کام کرکے اپنے بڑھاپے اور بال بچوں کے خرچے اخراجات کےلئے پیسے بچانے ہوں گے اور اگر تم 75 سے لے کر سو سال تک زندہ رہے تو تمہاری شکل بگڑ جائے گی تمہاری کمر میں خم آجائے گا تمہارے چہرے پر جھریاں آ جائیں گی اور جس طرح بچے چڑیا گھر میں بندر کو دیکھ کر ہنستے ہیں اس طرح تمہاری شکل کو دیکھ وہ ہنسا کریں گے‘ اب آپ ذرا سوچئے کہ اس کہاوت میں کتنی حقیقت ہے۔