زبانی جمع خرچی تو بہت ہو چکی عمل کا وقت ہے عوام منتظر ہیں کہ کب اور کیسے موجود حکمرا ن ان سے کئے گئے وہ وعدے ایفا کریں گے جو گزشتہ الیکشن سے پہلے ان سے کئے گئے تھے ابھی تک چونکہ صرف باتوں کی حد تک ہی کام ہوا ہے اس لئے اپوزیشن کے مردہ جسم میں جیسے دوبارہ جان پڑ گئی ہے اور آپ نے یقینا بعض اپوزیشن رہنماو¿ں کو برملا یہ کہتے سنا ہوگا کہ ہم نہ کہتے تھے کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جو وعدے کر رہے ہیں ان کی دراصل کوئی حقیقت ہی نہیں‘ لگ یہ رہا ہے کہ بیوروکریسی اور پولیس حکمرانوں کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی اور یا پھر پے در پے ان کے کاموں میں سیاسی مداخلت سے ان میں initiative ختم ہوگیا ہے‘ حال ہی میں کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جس سے ایسا لگا کہ جیسے حکومت کی رٹ نامی کوئی شے سرے سے موجود ہی نہیں پٹرول کا بحران پیدا ہوا اس کےساتھ مارکیٹ میں آٹے کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا‘ حکومتی ادارے کہاں تھے کہ جو ان بحرانوں کو پیدا ہونے ہی نہ دیتے اور اگر حریص منافع خوروں نے یہ بحران جان بوجھ کر پیدا کئے تھے تو ان پر انتظامیہ اور پولیس نے آہنی ہاتھ کیوں نہیں ڈالا‘ بدقسمتی سے پبلک میں یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ حکومت انتظامی طور پر حد درجہ کمزور ہے حکومت کی رٹ قائم رکھنے کے لئے بسا اوقات ڈنڈے سے بھی کام لیا جاتا ہے ‘انگریزی زبان کا ایک مقولہ ہے کہ گدھے کو گاجر بھی کھلائی جائے پرساتھ ہی ساتھ اس پر ڈنڈا بھی چلانا ضروری ہوتا ہے‘ حکومت مختلف پریشر گروپس کے آگے بہت جلد گھٹنے ٹیک دیتی ہے جس سے معاشرے کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے بلیک میلرز ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ جان چکے ہیں کہ حکومت کو آنکھیں دکھا کر ہر جائز و ناجائز کام کروایا جا سکتا ہے‘ کہا یہ جا رہا ہے کہ شاید کورونا وائرس کی وبا اس سال اگست یا ستمبر تک اس ملک میں اپنے عروج تک پہنچے‘خدا جانے جب وہ اپنے عروج تک پہنچے گی تووہ کتنی زندگیوں کو نگل چکی ہوگی۔
موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے کم و بیش اس وقت تک دو سال پورے ہو چکے ہوں گے‘ پاکستان کے آئین کے تحت اقتدار میں ہر حکومت کا دورانیہ پانچ برس ہوتا ہے اور پانچواں سال عموما الیکشن کا سال بن جاتا ہے‘ باالفاظ دیگر ستمبر کے بعد اس کے پاس صرف دو برس با قی بچ جائیں گے جس میں اس نے اپنے اس منشور کو عملی جامہ پہنانا ہے کہ جس کے بل بوتے پر وہ 2018میں بر سر اقتدار آئی تھی ‘کورونا نے ملک کی معیشت کا دیوالیہ نکال دیا ہے اور صاف ظاہر ہے کہ موجودہ حکومت اقتدار میں باقی ماندہ وقت کے دوران قوم سے کئے گئے تمام وعدے شاید پورے نہ کر سکے ‘اس لئے جب وہ آئندہ الیکشن کےلئے سیاسی اکھاڑے میں اترے گی تو اس کےلئے یہ بہت بڑا ہینڈی کیپ ہوگا ‘قوم میں البتہ اتنا سیاسی شعور ضرور موجود ہے کہ وہ یہ محسوس کر سکے کہ اگر حکومت وقت زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکی تو اس کی بڑی وجہ کورونا وائرس کی شکل میں عذاب تھا جس پر اس کی کوئی دسترس نہیں تھی اور شاید آئندہ الیکشن میں یہ حقیقت حکومت وقت کے کام بھی آجائے البتہ حکمران اس بات کو نہ بھولیں کہ انہوں نے دو ہزار اٹھارہ کا الیکشن اس ایجنڈے پر لڑا تھا کہ وہ ملک سے کرپٹ عناصر کا قلع قمع کرکے ملک کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس ملک میں لائیں گے اس محاذ پر ابھی تک خدا لگتی ہے کہ کوئی ٹھوس پیش رفت بالکل نہیں ہوئی اگر آئندہ دو برسوں میں بھی معاملہ جوں کا توں رہتا ہے تو اس غفلت کا خمیازہ حکمرانوں کو آئندہ الیکشن میں بھگتنا پڑے گا۔