جن ممالک میں سرمایہ دارانہ معیشت کا نظام چل رہا ہے وہاں حکومتوں نے سرمایہ داروں کی حرص کو کنٹرول کرنے کےلئے ان پر مختلف قسم کے چیک اینڈ بیلنس رکھے ہیں جب ان ممالک کے ماہرین معیشت نے محسوس کیا کہ اکثر صنعت کارمل جل کر آپس میں گٹھ جوڑ کرکے مختلف صنعتوں میں اجارہ داریاں بنا لیتے ہیں جنہیں معیشت کی زبان میں مناپلی اور کارٹیل کہا جاتا ہے اور اس طرح اپنی مصنوعات کو من مانی قیمتوں پر فروخت کرکے وہ عوام الناس کا معاشی استحصال کرتے ہیں تو انہوں نے ان کی اس حرص پر قدغن لگانے کےلئے اپنے ملکوں میں کمپی ٹےشن کمیشن قائم کئے اور ان کے ذریعہ انہوں نے اپنے اپنے ملکوں میں مناپلی اورکارٹیل بنانے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی اور اس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے‘سرمایہ دار جیل جانے سے بہت ڈرتا ہے اگر وہ کسی جرم میں ملوث پایا جائے تو وہ جرمانہ تو خوشی برضا ادا کر دیتا ہے پر اس کےخلاف اگر کوئی جرم ثابت ہو جائے کہ جس کی سزا میں جیل کی ہوا کھانا بھی شامل ہو تو اس کی جیسے پھر ماں مر جاتی ہے وہ جیل جانے سے سخت گھبراتا ہے‘ جیل کے نام سے اس کے اوسان خطا ہوتے ہیں لہٰذا امریکا اور کئی یورپی ممالک میں حکومتوں نے اپنے اپنے ہاں کمپی ٹےشن کمیشن کے اہلکاروں کو وسیع اختیارات دیئے ہیں کہ وہ نہ صرف مناپلی اور کارٹےل کے قیام میں ملوث صنعتکاروں کو نہ صرف بھاری جرمانہ کر سکتے ہیں بلکہ انہیں لمبی جیل کی سزا بھی سنا سکتے ہیں‘ ۔
اس سے یہ فائدہ ہوا ہے کہ ان ممالک میں مناپلی اور کارٹیل کے قیام کی کافی حد تک حوصلہ شکنی ہوئی ہے اور وہاں کے عوام کے معاشی استحصال کے تمام راستے تقریباً بند ہو چکے ہیں‘وطن عزیز میں بھی کمپی ٹےشن کمیشن کے نام سے ایک ادارہ قائم ہے افسوس کےساتھ کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ 12 برس میں اس کی کارکردگی صفر کے برابر ہے‘ ماضی کی حکومتوں نے خانہ پری کے لئے یہ کمیشن بنا تو دیا پر اسے بنا کر بھلا دیا گیا ‘اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ گزشتہ بیس سال میں جو حکمران اس ملک پر مسلط تھے وہ تقریباً تمام کے تمام کسی نہ کسی حوالے سے مختلف صنعتوں کے مالک تھے لہٰذا یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ ایک ایسا آزاد اور خودمختار اور مضبوط قسم کا کمپی ٹےشن کمیشن بناتے جو صنعتکاروں کی من مانیوں کی نشاندہی کرکے ان کے خلاف حسب ضابطہ قانونی کاروائی کر سکتا جو کمیشن انہوں نے بنایا اس کے منہ میں دانت ہی نہیں تھے چنانچہ ہم نے دیکھا کہ اس ملک میں گزشتہ 12 برس میں سیمنٹ کی انڈسٹری ہو کہ شوگر کی انڈسٹری ےا پٹرولیم کا کاروبار ہو ہر شعبے میں سرمایہ داروں نے جی بھرکر عوام الناس کا معاشی استحصال کیا اور راتوں رات وہ کھرب پتی بن گئے ۔
اب شاید بعد ازخرابی بسیار حکومت اس کمیشن کے اہلکاروں کو مناپلی اور کارٹیل بنانے والوں پر نہ صرف بھاری جرمانہ لگانے بلکہ ان کو جیل کی سزا سنانے کا اختیار بھی دے دے ‘اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پھر یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اس ملک میں مختلف صنعتوں کے اندر مناپلی اور کارٹےل کا رجحان شاید ختم ہو سکے‘اب تک اس معاملے میں حکومت کی بے اعتنائی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ ایک عرصہ سے کمپی ٹےشن کمیشن میں تین کمشنروں کی آسامیاں خالی پڑی ہیں اور حکومت وقت نے تادم تحریر ان پر کوئی تعیناتی نہیں کی‘ اگر اس ملک میں آج ایک مضبوط کمپی ٹےشن کمیشن موجود ہوتا تو کسی صورت میں بھی اس ملک کے اندرنہ کوئی شوگر مافیا بن سکتا نہ کوئی سیمنٹ مافیا اور نہ کوئی آٹا مافیا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ پورا نظام ایک عجیب طریقے سے چل رہا ہے کوئی پالیسی کوئی وژن نہیں ہے ‘ قانون پر عملدرآمد شاذونادر ہی ہوتا ہے بلکہ قانون کو موم کی ناک سمجھا جاتا ہے جس طاقتور کا جدھر دل ہوتا ہے قانون کو اپنی مرضی کے مطابق ادھر ہی موڑ لیتا ہے تب ہی تو اربوں روپے کے ڈاکے پڑ جاتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی چینی بحران کو لے لیں ملزمالکان نے اربوں روپے کمالئے لیکن تاحال کسی کو کوئی سزا نہیں ہوئی نا ہی قیمتیں کم ہوئی۔