پارلیمانی جمہوریت کی اپنی منفرد قسم کی روایات ہوتی ہیں جن پر جمہوری لوگوں کا چلنا ضروری قرار دیا گیا ہے ‘12 جون کو مرکزی حکومت نے قومی اسمبلی میں اپنا بجٹ پیش کیا ‘حماد اظہر کی بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن ممبران نے جو شور و غوغا مچایا وہ ان جمہوری روایات کی نفی کرتا ہے جس کا اشارہ ہم نے اوپر کی سطر میں کیا ہے‘ اصولی طور پر ہونا یہ چاہئے کہ حزب اقتدار کی طرف سے جو بجٹ دستاویزات اسمبلی کے فلور پر پیش کی جاتی ہیں اور بجٹ تقریر میں جو جو سفارشات درج ہوتی ہیں اپوزیشن کی پارٹیاں ان کے برعکس اگر ان کے پاس کوئی بہتر سفارشات موجود ہوں تو وہ تحریری شکل میں ان سفارشات کو قومی اسمبلی میں پیش کریں اور ان پر بحث و مباحث کا ایک سلسلہ ہو برطانیہ کا ہم نام اکثر اس وقت لیتے ہیں جب ہم نے پارلیمانی جمہوریت کی اچھائیاں بیان کرنا ہوتی ہیں وہاں پر تو ایک عرصہ سے اپوزیشن والے اپنی ایک شیڈو کیبنٹ بھی بناتے چلے آرہے ہیں ایسا کرنا شاید وطن عزیز میں ممکن اس لئے نہیں کہ یہاں تو ایک دو یا تین سیاسی پارٹیوں کے بجائے سیاسی پارٹیوں کا ایک انبار ہے بلکہ یوں کہئے چوں چوں کا مربہ ہے‘حکومت وقت کےخلاف سڑکوں پر عوام کو لانے یا پارلیمان کے اندر شور مچانے کےلئے تو حزب اختلاف کے لوگ فوراً یک جان دو قالب باآسانی ہو جاتے ہیں۔
پر سنجیدہ معاملات میں وہ کبھی سر جوڑ کر نہیں بیٹھتے اگر اس ملک میں صحیح معنوں میں پارلیمانی نظام ہوتا تو بجٹ پر 12 جون کو اسمبلی کے اندر اپوزیشن آسمان سر پر اٹھانے کے بجائے ااپوزیشن لیڈر حزب اختلاف کی طرف سے متبادل بجٹ کی دستاویزات بلیک اینڈ وائٹ میں پیش کرتے اور ان پر بحث و مباحثہ کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ وہ جو متبادل تجاویز پیش کر رہے ہیں وہ ان سے بدرجہا بہتر ہیں کہ جو حکومت نے بجٹ دستاویزات میں رقم کی ہیں خدا لگتی یہ ہے کہ ملک کے موجودہ مالی حالات میں اس سے بہتر بجٹ پیش نہیں کیا جا سکتا تھا امریکا چین روس اور دوسرے معاشی طور پر خوشحال ممالک کا بھی حال آج کل بڑا پتلا ہے جب وہ آج کل خسارے میں جا رہے ہیں ۔
تو ہم کس باغ کی مولی ہیں‘ ہماری معیشت کا تو کورونا وائرس کے آنے سے پیشتر ہی کچومر نکل چکا تھا ‘آج تو ہماری معیشت اس قدر دگر گوں ہو چکی ہے کہ ہم اس قابل بھی نہیں کہ اپنے ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن میں اضافہ کرتے‘ ان حالات میں حکومت کے پاس اس ان آپشنز کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا جن کا عکس ہمیں بجٹ دستاویزات میں نظر آتا ہے وزیراعظم نے اچھا کیا جو وہ بجٹ تقریر کے دوران قومی اسمبلی میں موجود رہے پارلیمنٹ میں اگر وہ تواتر سے آتے جاتے رہے تو اس عمل سے اس ادارے کو تقویت ملے گی اور ان کے ان ناقدین کا منہ بھی بند ہو جائے گا جو ان پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وزیراعظم پارلیمنٹ کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے بجٹ اجلاس کی ایک اور نمایاں بات یہ تھی کہ قومی اسمبلی کے ارکان کی ایک بڑی تعداد نے اس میں کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے حفظ ماتقدم کے طور پر شرکت نہیں کی غالباً ان کی دانست میں قومی اسمبلی کے ہال کے اندر جو حفاظتی تدابیر اپنائی گئیں ان سے وہ مطمئن نہ تھے کئی اراکین قومی اسمبلی کورونا وائرس کی زد میں چونکہ پہلے ہی سے آ چکے تھے جس کی وجہ سے اکثر اراکین اسمبلی کے حوصلے پست نظر آئے اور انہوں نے عافیت اسی بات میں سمجھی کہ اجلاس میں شرکت نہ کی جائے ۔