اک چراغ اوربجھا

 پاکستان فلم انڈسٹری کی معروف اداکارہ صبیحہ خانم کا اگلے روزامریکہ میں انتقال ہوگیا وہ لالی ووڈ کے مشہور ہیرو سنتوش کمار کی اہلیہ تھیں جس طرح سنتوش کمار کو لولالی وڈ کا پہلا genuine ہیرو قرار دیا جاتا ہے بالکل اسی طرح پاکستان کی فلم انڈسٹری میں بطور ہیروئن وہی مقام صبیحہ خانم کا بھی ہے صبیحہ خانم نے لاتعداد سپر ہٹ فلموں میں کام کیا اس وقت ذہن میں جن فلموں کے نام آرہے ہیں وہ یہ ہیں جیسا کہ فلم وعدہ موسیقار ‘ چھوٹی بیگم ‘ گمنام ‘سرفروش‘ ایک گناہ اور سہی وغیرہ وغیرہ سنتوش کمار اور صبیحہ خانم کی فلمی جوڑی ایک کامیاب ترین جوڑی تصور کی جاتی تھی اور کسی بھی فلم میں ان کی موجودگی کو اس فلم کی باکس آفس پر کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا صبیحہ اور سنتوش کمار کی ازدواجی زندگی بھی ان کی فلمی زندگی کی طرح نہایت کامیاب اور پرسکون تھی البتہ زندگی نے سنتوش کمار کے ساتھ وفا نہیں کی اور وہ بہت جلد دنیا سے چل بسے ان کی رحلت کے بعد ایک بڑے عرصے تک صبیحہ خانم نے تنہا زندگی گزاری انہوں نے نہ صرف یہ کہ بطور فلم ہیروئن بڑا نام کمایا کبیر سنی میں انھوں نے بعض فلموں میں بطور کیریکٹر ایکٹرس بھی کام کیا اور ان میں بھی اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صبیحہ خانم جیسی اداکارائیں روز روزنہیں پیدا ہوتی ہیں ان کی رحلت سے یقینا لالی وڈ ایک عہد تمام ہوا ہے۔

 یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جس طرح سنتوش کمار عالم شباب میں دنیائے فانی سے کوچ کر گئے تھے بالکل اسی طرح انکے چھوٹے بھائی درپن بھی لمبی عمر نہ پا سکے ان کی اہلیہ نیر سلطانہ بھی لولی وڈ کی مشہور فلم ہیروئن تھی درپن کا شمار بھی پاکستان فلم انڈسٹری کے کامیاب فلمی ہیروز میں ہوتا ہے ایک زمانے میں مشہور تھا کہ لاہور میں اگر کوئی خوبصورت ترین تین افراد موجود ہیں تو وہ مشہور فلمی ہیروسنتوش کمار مشہور کرکٹر فضل محمود اور مشہور شاعر منیر نیازی ہیں اور اب ذرا آتے ہیں ایک دوسرے موضوع کی طرف جو قدرے خشک قسم کا ہے پر جس کا ہماری زندگیوں پر بڑا گہرا اثر پڑا ہے اور آئندہ بھی پڑے گا ۔

اس کا تعلق براہ راست ہماری معیشت کےساتھ ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت برآمدات بڑھانے میں تو بالکل کامیاب نہیں ہوئی پر درآمدات ضرور کم ہوئی ہیں بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتوں میں زبردست کمی نے اس کی معیشت کی کچھ حد تک لاج رکھ دی ہے کچھ عرصہ پہلے صورتحال حال یہ ہو گئی تھی کہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں تیل تو تھا پر اس کے خریدار موجود نہیں تھے اور آپ جانتے ہی ہیں کہ پاکستان کی درآمدات کا سب سے بڑا بل تیل کا بل ہوتا ہے جس پر تقریبا 14 ارب ڈالرز خرچ ہوتے ہیں یہ بل گھٹ کر چھ ارب ڈالرز کے لگ بھگ آگیا اور وہ ممالک جو کل تک تیل دینے میں نخرے کر رہے تھے وہ سودوں کےلئے منتیں کرنے لگے چنانچہ آٹھ ارب ڈالر کی اس مد میں بچت ہماری معیشت کیلئے کسی لاٹری سے کم نہ تھی ہر چیز کا ایک تاریک پہلو بھی ہوتا ہے ہے جب تیل پیدا کرنے والوں کی آمدنی کم ہوئی تو انہوں نے بیرون ملک سے آئے ہوئے ملازمین کو فارغ کرنا شروع کر دیا ہمارے لاکھوں شہری بیرون ملک مقیم ہیں ان میں سے 60 فیصد سے زیادہ زیادہ تیل پیدا کرنے والے ممالک میں ملازمت کرتے ہیں وہ پاکستان کو زرمبادلہ بھیجتے ہیں غیر ملکی زر مبادلہ کا اب کیا ہوگا یہ بہت بڑا سوال ہے جو اس وقت اس ملک کے ماہرین معیشت کو پریشان کر رہا ہے۔