بھارت کے کرتوت اب کھل کر سامنے آرہے ہیں مسلمانوں کے خلاف اس کے اقدامات سے ساری دنیا یہ سمجھ گئی ہے کہ بھارت اب سیکولر سٹیٹ نہیں رہا نہ ہی وہاں جمہوریت ایسی ہے کہ مسلمان بھی آگے آسکیں اور اب تو سکھوں کے خلاف بھی ہندوﺅں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے آج ساری دنیا مان رہی ہے کہ بھارت اقلیتوں کو خصوصاً مسلمانوں اور سکھوں کو دیوار سے لگا رہی ہے کشمیر میں بھی اس کے کرفیو کو سال پور ا ہونے کو آیا ہے لیکن ابھی تک کشمیری کرفیو میں پھنسے ہوئے ہیں پاکستان کے خلاف بھی1947 سے اس کی سازشیں اور جنگیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیںاس نے بنگلہ دیش کو ہم سے ایک سازش کے ذریعے جدا کیا اب بھی اس کا دل نہیں بھرا اور وہ ہماری بربادی کے لئے نت نئی سازشیں کر رہا ہے مودی اور اس جیسی سیاسی سوچ رکھنے والوں کی شکل میں قدرت نے بھارت پر ایسے رہنما مسلط کئے ہیں جو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اس کی جڑوں میں پانی دے رہے ہیں کوئی دن جاتا ہے کہ بھارت کے اندر شکست و ریخت کا عمل شروع ہو جائے گا‘ یہ اندازہ کسی خوش فہمی پر مبنی نہیں‘ بھارت کے اندر آج کل جو سیاسی مدوجزر نظر آرہا ہے اس سے پتہ چلتا ہے آج نہیں تو کل بھارت کے اندر مختلف قسم کی جو آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں وہ شاید رنگ لے آئیں‘۔
تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ بھارت چین اور کشمیر یہ تینوں لداخ کو اپنا حصہ سمجھتے ہیں کچھ عرصہ پہلے جب بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرکے لداخ اورکشمیر کو اپنی یونین کی ٹیرٹری ڈکلیئر کیا تو جہاں تک پاکستان اور کشمیریوں کا تعلق ہے انہوں نے اقوام متحدہ میں چند بیانات دیئے اور رود ھو کر صبر اور شکر اختیار کر لیا پر چین نے بھارت کے ساتھ ایسا کام کیا جس سے اسے دن کے وقت آسمان میں تارے نظر آنے لگے‘ انیس سو ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں ایک مرتبہ سرحدی جھڑپ میں چینی فوج نے بھارتی فوج کے دانت کھٹے کئے ہوئے تھے اور جو زخم بھارتیوں کو اس وقت لگے تھے وہ اب تک تازہ ہیں جنہیں وہ اب بھی چاٹ رہے ہیں چین نے فوراً متنازع علاقے میں 60 مربع کلومیٹر کا علاقہ بھارت سے چھین کر اس پر قبضہ کر لیا اور بھارتی فوجی جن کا چینی فوجیوں کو دیکھ کر مورال ڈاو¿ن ہو جاتا ہے دیکھتے ہی رہ گئے‘ اس متنازع علاقے میں ایک ایسا علاقہ بھی ہے کہ جس کوسلیگوڑی کوریڈور کے نام سے پکارا جاتا ہے بھارت کو یہ خطرہ ہے کہ اگر چینی فوجیوں نے اس کوریڈور کوبھی ہتھیا لیا تو اس صورت میں اس کے لئے نا ممکن ہو جائے گا کہ وہ ان آٹھ ریاستوں پر اپنا سیاسی کنٹرول رکھ سکے کہ جن میں پہلے ہی سے آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں‘ ان ریاستوں کے نام یہ ہیں ‘اروناچل پردیش‘ میزورام‘ تری پورہ ناگالینڈ‘ آسام‘ سکم میگھا لا اور منی پور‘ بھوٹان بھی بھارت کا ہمسایہ ہے اس کے حکمرانوں کو یہ احساس ہو چلا ہے کہ بھارت نے ان کو چین کے خلاف ناجائز طور پر استعمال کیا ہے وہ اب ماضی کو بھول کر چین کے ساتھ اپنے تعلقات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں اور ان کی یہ سوچ بھارتی لیڈر شپ کے لئے سوہان روح ہے‘ بھارت کی یہ خام خیالی ہے اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ روس چین کے خلاف اس کا یا امریکہ کا ساتھ دے گا بے شک بھارت اور روس میں تجارتی سطح پر گہرے روابط قائم ہو چکے ہیں پر ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے روس چین کو اپنا قدرتی سیاسی حلیف سمجھتا ہے اور وہ امریکہ کے خلاف محاذ میں چین کا ساتھ دے گا‘۔
اس بات کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا کہ ٹرمپ کے ساتھ مودی کا یارانہ بھارت کو اس صورت میں مہنگا پڑ سکتا ہے اگر آئندہ نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک پارٹی کا کوئی لیڈر امریکہ کا صدر بن جائے ‘قرائن و شواہد تو یہ بتا رہے ہیں کہ بھارت کے دنیا میں سیاسی امیج کو کومودی سرکار کی وجہ سے کافی نقصان پہنچا ہے ۔