محبت میں کچھ تو جنون کا اثر ہوتا ہے اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں ‘کورونا وائرس کے وجود سے کوئی انکار نہیں کرسکتا پر اس ملک کے میڈیا نے اسے کچھ اس انداز سے مرچ مصالحہ لگا کر پیش کیا ہے کہ جس سے وطن عزیز کے اکثر لوگ ذہنی مریض بن گئے ہیں‘ کہتے ہیں دمشق میں ایک دفعہ اتنا قحط پھیلا تھا کہ لوگ عشق کرنا بھول گئے تھے پاکستان میں بھی آج لوگ صبح کے ناشتے کا وقت ہو یا دوپہر کے کھانے کا اور یا پھر ڈنر کا وہ جب بھی وہ اپنا ٹی وی آن کرتے ہیں تو ان کو اس وبا کی خبروں کے علاوہ کوئی دوسری خبر سننے یا دیکھنے کو نہیں ملتی‘ ہر جگہ بس کورونا کی ہی گردان ہے اور اب تو امپیریل کالج لندن والوں نے یہ کہہ کر وطن عزیز کے باسیوں کی نیندیں مزید حرام کر دی ہیں کہ اس سے اگست کے وسط تک اس ملک کے ڈیڑھ لاکھ کے قریب لوگ لقمہ اجل بن جائیں گے اور ایک دن میں اسی ہزار کے قریب اموات بھی واقع ہو سکتی ہیں‘ کسی اندھے کودو آنکھوں کے سوا اور کیا چاہئے ٹیلی ویژن کے پروڈیوسرز کو اپنے پروگراموں کے پیٹ بھرنے کے لئے خبروں کی فوٹیج درکار ہوتی ہے اور گزشتہ تین چار مہینوں سے ان کا یہ کام کورونا وائرس نے کافی حد تک آسان کردیا ہے۔
‘ ان کو اس موضوع پر بے پناہ فوٹیج مل رہی ہے‘ جون کا مہینہ بجٹ کا مہینہ ہوتا ہے جس میں مرکزی اور صوبائی حکومتیں اپنے بجٹ قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے منظور کرواتی ہیں اس سال چونکہ کورو نا وائرس کی وبا سے ملک کا معاشی طور پردیوالیہ نکل چکا تھا عام آدمی جانتا تھا کہ شاید اس سال کے بجٹ میں اسے کسی قسم کا معاشی ریلیف نہ مل سکے ‘حکومت کے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ وہ اپنے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کرسکے کجا یہ کہ وہ کسی بڑے اجتماعی عوامی بھلائی کے کسی منصوبے کا آغاز کر سکے‘ اس لئے ہمیں حکومت سندھ کا یہ اقدام بڑا عجیب لگا کہ اس نے دوسری صوبائی حکومتوں اور مرکزی حکومت کے برعکس اپنے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا ‘ نہ جانے ہمارے سیاسی حکمران کب حقیقت پسندانہ رویئے اپنانا شروع کریں گے۔
سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے وہ اب بھی ایسے فیصلے کرتے ہیں کہ جو سیاسی طور پر تو شاید مقبول ہوں پر معاشی طور پر وہ ملک یا صوبے کی معیشت کے لئے زہر قاتل کے مترادف ہوتے ہیں۔اس قوم پر بھلا اللہ کا فضل کیوں نازل ہوکہ جو کورونا وائرس کے شکار افراد کی جان بچانے کے لئے استعمال ہونے والے انجکشن اور پلازما کو مارکیٹ میں بلیک پر فروخت کرنا شروع کر دے جو مصیبت کی اس گھڑی میں بھی اپنا کاروبار چمکائے‘ خدا لگتی یہ ہے کہ ہماری قوم میں اخلاقیات کا سخت فقدان ہے صرف ہمارا سرمایہ دار ہی غریب عوام کے معاشی استحصال میں ملوث نہیں‘ ہم میں سے جس کسی کو بھی موقع ملتا ہے بھلے وہ اونچے لیول کا تاجر ہو یا نچلی سطح کا دکاندار وہ عوام کی چمڑی ادھیڑ نے میں منٹ بھی نہیں لگاتا‘لگتا یہ ہے کہ فواد چودھری صاحب نے عید الفطرعید الاضحی اور رمضان شریف کے چاند دیکھنے کا مسئلہ کافی حد تک حل کر دیا ہے‘ موصوف نے اگلے روز ابھی سے اعلان کر دیا ہے کہ متعلقہ سائنسی ادارے کے حساب کتاب کے مطابق اس سال عید الاضحی 31 جولائی کو ہوگی اب دےکھتے ہیں کہ ان کا حساب کتاب درست ثابت ہوتاہے یا نہیں۔