زوال پذیرلیڈرشپ

 مسٹر بولٹن نے ایک عرصے تک صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ امریکہ کے سلامتی کے امور کے معاون کی حیثیت سے کام کیا ہے بعد میں امریکی صدر کے لاابالی پن کی وجہ سے انہیں اپنے منصب سے دستبردار ہونا پڑا‘حال ہی میں انہوں نے اپنی کتاب میں چند ایسے انکشافات کئے ہیں کہ جن سے صدر ٹرمپ کی شخصیت کے بعض منفی پہلو آشکارہوتے ہیں‘ ٹرمپ کے بارے میں انہوں نے چند ایسی باتیں لکھی ہیں جن کو پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ آج کا امریکی صدر اہلیت سیاسی بصیرت‘ معاملہ فہمی ‘دور اندیشی اور دیانت داری کے لحاظ سے ماضی کے امریکی صدورسے کتنا کم تر ہے یا تو امریکہ نے جارج واشنگٹن‘ ابراہام لنکن‘ جےفر سن‘ روز ویلٹ اور آئزن ہاور جیسے نابغہ روزگار پیدا کیے اور یا پھر زوال کا یہ عالم ہے کہ آج ڈونلڈ ٹرمپ جیسے لوگ وائٹ ہاو¿س کے مکین بن رہے ہیں‘ بولٹن نے اپنی کتاب میں اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ امریکی صدر نے چین کے صدر سے درخواست کی کہ امریکہ کے صدر بننے کے لئے اسے ان کی حمایت درکار ہے اس سے بڑی الیکشن میں دھاندلی بھلا اور کیا ہو سکتی ہے‘ بولٹن کے مطابق ٹرمپ کا جنرل نالج بھی کافی کمزور تھا اور بقول بولٹن ڈونلڈ ٹرمپ کا ان سے جب واسطہ پڑا تو انہیں پتہ چلا کہ امریکی صدر کو کئی ممالک کے بارے میں سرے سے یہ علم نہ تھا کہ وہ کس براعظم میں واقع ہیں‘ کجا یہ کہ وہ ان کے اندرونی سیاسی حالات سے پوری طرح باخبر ہوں‘ اب آپ خود ہی اندازہ لگائیے کہ اس قسم کی ذہنی صلاحیت رکھنے والا کوئی فرد اگر امریکہ جیسی سپر پاور کا صدر بن جائے تو پھر تو وہ اسی قسم کے ہی اوٹ پٹانگ اندرونی اور بیرونی فیصلے کرے گا جو ڈونلڈ ٹرمپ برسوں سے کر رہے ہیں۔

 ایک ایسا دور بھی گزرا ہے کہ جب سیاسی افق پر بیک وقت بے شمار چمکدار ستارے جگمگایا کرتے یا وقفے وقفے سے عالمی سیاست میں بین الاقوامی سطح پرایسی ہستیاں پیدا ہوا کرتےں جو دوراندیشی میں اپنا جواب نہیں رکھتی تھےںاور جن کی موجودگی دنیا میں امن کی ضمانت تھی اگر ان کا وجود نہ ہوتا تو دنیا میں تیسری جنگ عظیم کب کی شروع ہو چکی ہوتی ‘پولیٹیکل سائنس کے تمام طالب علموں کے دلوں میں بعض نامور سیاسی ہستیوں کے لئے بڑا احترام ہے ہم ان میں سے چند ایک کے نام لے لیتے ہیں‘ روزویلٹ جنرل ڈیگال‘ مارشل ٹیٹو‘ جمال عبد الناصر‘ ماﺅزے تنگ‘ چو این لائی‘ نیلسن منڈیلا وغیرہ امریکا کی شہ پر نریندر مودی نے چین کے خلاف عسکری محاذ کھول کر کوئی دانشمندی کا ثبوت نہیں دیا۔

 اس میں کوئی شک نہیں صدر ٹرمپ کے اکثر فیصلے امریکہ کی پینٹاگان کی رائے کے برعکس ہوتے ہیں ٹرمپ اور ہٹلر میں قدر ے مشترک یہ ہے کہ ٹرمپ کی طرح وہ بھی جرمنی فوج کے جرنیلوں کی رائے کو درخوراعتنا نہیں سمجھتا تھا‘ہٹلر کو بعد میں اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی اور عین ممکن ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی کسی نہ کسی دن اپنی موجودہ پالیسیوں کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے‘ چین ایک مرتبہ انیس سو ساٹھ کے اوائل میں بھارت کے ساتھ ایک جنگ کر چکا ہے جس کے دوران بھارت نے بھاری نقصان اٹھایا ہے نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں اگر ڈیموکریٹک پارٹی کوئی مضبوط امیدوار سامنے لانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو صدر ٹرمپ کا دوبارہ امریکہ کا صدر بن جانا کافی مشکل ہوگا ۔