تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس ملک کے تقریباً تقریبا ًتمام سیاسی رہنما عوام سے جو وعدے وعید کرتے ہیں انہیں پھر وہ عملی جامہ نہیں پہناتے اور اس روش کی وجہ سے آج عوام کا ان پر اعتماد ختم ہو چکا ہے ہماری سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ حکومت کے پاس بھلا وہ کون سا آلہ دین کا چراغ ہے کہ جس سے وہ کورونا وائرس کی وجہ سے غیر ملکوں میں بے روزگار ہونے والے پاکستانی مزدوروں کی وطن واپسی پر انہیں روزگار مہیا کر سکے گی اس ضمن میں تو حکومت کی پہلے ہی سے حالت پتلی ہے کیا حکومت پاکستان سٹیل مل اور دیگر سرکاری اور نجی اداروں سے ہزاروں نوکریاں ختم کرنے کے بارے میں نہیں سوچ رہی ان حالات میں بھلا اس کیلئے کیسے ممکن ہوگا کہ وہ غیر ملک میں کام کرنے والے پاکستانی مزدوروں کی وطن واپسی پر انہیں یہاں کسی سرکاری یا نجی ادا رے میں کھپا سکے وہ کیوں آخر لو گوں میں ایسی امیدیں جگا رہی ہے کہ جنہیں کل کلاں پورا کرنا اس کے بس میں نہ ہوگا اس ملک کی سیاسی تاریخ پر اگر آپ ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ہر دور میں اقتدار میں آنے کیلئے اور عوام سے ووٹ لینے کی خاطر سیاسی لوگوں نے ان سے ایسے وعدے بھی کیے کہ اگر وہ کل کلاں اقتدار میں آگئے تو وہ تمام کرایہ دار جو اپنا ذاتی مکان نہ ہونے کی وجہ سے کرائے کے مکان میں زندگی گزار رہے ہیں وہ ان مکانات کے مالک قرار دے دیئے جائیں گے یہ علیحدہ بات ہے کہ جب وہ برسر اقتدار آئے اور کرایہ داروں نے اپنے اپنے گھروں کے مالکوں کو کرایہ دینا بند کیا تو ان مکانات کے مالکوں نے پھر ان سے عدالتوں کے ڈنڈے کے زور پر کرایہ وصول کیا اور وہ کرایہ داران سیاسی شعبدہ بازوں کا منہ دیکھتے رہ گئے کہ جنہوں نے ان سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ان مکانات کے مالک بنا دئیے جائیں گے جن میں وہ رہائش پذیر ہیں ۔
پاکستان تحریک انصاف سے اپنا رستہ جدا کرنے والی بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماو¿ں کا بھی یہی گلہ ہے کہ ان سے حکومتی پارٹی نے جو وعدے کئے تھے اور جن کی بنیاد پر انہوں نے اس کی اتحادی پارٹی بننے پر رضا مندی کا اظہار کیا تھا ان وعدوں کو حکومتی اراکین نے پورا نہیں کیا جس کی وجہ سے اب ان کا حکومت کے ساتھ قدم ملا کر چلنا مشکل ہو چکا ہے تادم تحریر حکومتی اراکین کی کوششوں کے باوجودبلوچستان نیشنل پارٹی کو منانے میںحکومت ناکام نظر آتی ہے۔پر چونکہ سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا عین ممکن ہے کہ جلد یا بدیر یا ہوسکتا ہے اس تحریر کے منظر عام تک آنے سے پہلے ہی اختر مینگل صاحب دوبارہ ایک مرتبہ پھر راضی ہو جائیں کیونکہ ماضی میں بھی وہ اپنا سیاسی پینترا بدل کر بعد میں حکومت وقت کے ساتھ ساتھ شیر و شکر ہو جایا کرتے تھے قطع نظر اس بات کے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔خدا لگتی یہ ہے کہ نہ صرف موجودہ حکومت بلکہ پچھلی حکومتوں نے بھی بلوچ رہنماو¿ں سے وعدے تو کافی کیے پر ان پر کماحقہ عمل درآمد نہیں کیا گیا مثال کے طور پر ہم چند وعدوں کا ذکر نچلی سطور میں کر دیتے ہیں اس مطالبے میں کافی وزن ہے کہ اپنے علاقوں سے بے دخل کیے جانے والے ہزاروں بلوچوں کی بحالی کے لئے فوری اقدامات اٹھانے جائیں اسی طرح افغان مہاجرین کے مسئلے سے نمٹنے کےلئے جامع پالیسی تشکیل دینی ضروری ہے بلوچستان میں ڈیمز کی تعمیر اور سونے اور تانبے کی دھاتوں کے لئے ریفائنریز کی تعمیر کا مطالبہ بھی جائز ہے ‘ جس پر وفاقی حکومت کو غور کرنا چاہئے۔