شہری ہوا بازی کے وزیر غلام سرور خان صاحب نے اگلے روز کراچی میں پی آئی اے کے حالیہ حادثے کی انکوائری رپورٹ کے بارے میں جو پریس کانفرنس کی وہ بڑی مدلل تھی‘ ان کی تقریر کا لب لباب یہ تھا کہ یہ حادثہ پائلٹ اور کنٹرول ٹاور میں ڈیوٹی پر متعین سٹاف کی غفلت اور مروجہ ایس او پیز پر عملدرآمد نہ کرنے کی وجہ سے ہوا‘یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اگر آپ ان تمام فضائی حادثات کی انکوائری رپورٹوں کے مندرجات کو گہری نظر سے دیکھیں کہ جو گزشتہ پچاس ساٹھ برسوں میں دنیا کے مختلف ممالک میں ہوتے رہے ہیں تو ان میں ایک قدر مشترک آپ کو نظر آئے گی اور وہ یہ ہے کہ 90 فیصد کے قریب فضائی حادثات انسانی غفلت یا غلطی کی وجہ سے ہوئے ہیں اور مشین نے صرف دس فیصد دھوکہ دیا ہے‘ غلام سرور خان صاحب نے اپنی پریس کانفرنس میں بعض چونکا دینے والے انکشافات کئے ہیں اور وہ یہ کہ آٹھ سو کے قریب پی آئی اے کے پائلٹوں میں سے 40 فیصد پائلٹوں کے ڈرائیونگ لائسنس مشکوک ہیں ‘باالفاظ دیگر وہ مروجہ کوالی فیکےشن پر پورا نہیں اترتے اور بااثر افراد کی سفارش پر ان کو جہاز اڑانے کے لئے لائسنس جاری کئے گئے‘ان میں سے کئی ایسے پائلٹ بھی ہیں کہ جو اب غیر ملکی ایئر لائنز کے ملازم ہیں‘ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس ملک میں یونین بازی کا اکثر غلط استعمال ہوتا چلا آیا ہے مثلاً پی آئی اے ایمپلائز یونین کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اتنی طاقتور ہے کہ بیرون ملک پروازوں پر اپنی ڈیوٹی لگوانے کے لئے اکثر پائلٹ اس کی مدد حاصل کرتے تھے‘ ان میں سے کس نے لندن جانا ہے کس نے پیرس اور کس نے نیویارک کے لئے اڑان بھرنی ہے اس بات کا فیصلہ پی آئی اے ایمپلائز یونین نے کرنا ہوتا تھا۔
یہ غالبا ًاس ملک کی ہوابازی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک نہیں بلکہ تین چار اسی قسم کے فضائی حادثات کی انکوائری رپورٹوں کو پبلک کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے کہ جو ماضی کی حکومتوں نے کسی نہ کسی سیاسی مصلحت کی وجہ سے دبا رکھی تھےںاگر تو حکومت نے پی آئی اے میں مختلف پریشر گروپس کی اجارہ داری ختم کرنی ہے تو اسے امریکہ کے سابق صدر ریگن کی طرح پی آئی اے میں سخت قدم اٹھانا ہوگا‘ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ امریکہ کے ہوائی اڈوں پر تعینات کنٹرول ٹاورز کے تمام عملے نے اپنی تنخواہ بڑھانے کے مطالبے کی حمایت میں ہڑتال کر دی تاکہ حکومت کو بلیک میل کیا جاسکے ظاہر ہے کہ جب ایئرپورٹس کے کنٹرول ٹاوروں پر ڈیوٹی دینے والا سٹاف ہڑتال پر چلا جائے تو اس ملک کے اندر چلنے والی ایئر ٹرانسپورٹ بشمول فارن فلائٹس کا شیڈول بری طرح متاثر ہوتا ہے اور لوگوں کے معمولات زندگی معطل ہوکر رہ جاتے ہیں‘ امریکی صدر ریگن نے بلیک میل ہونے سے انکار کر دیا ہڑتال پر جانے والے تمام اہلکاروں کو نوکریوں سے فارغ کر دیا اور امریکی فوج کے ایئر کنٹرول سسٹم کے اہلکاروں کو حکم دیا کہ وہ ان تمام ایئرپورٹس کے کنٹرول ٹاورز کا نظام سنبھال لیں کہ جن کا عملہ ہڑتال پر چلا گیا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امریکہ کے فضائی ٹرانسپورٹ کے نظام میں کوئی فرق نہ آیا ہڑتال پر جانے والے عملے نے کچھ عرصے بعد صدر ریگن کی منت زاری شروع کر دی اور ان سے کہا کہ ان کی بھی توبہ اور ان کے ماں باپ کی بھی توبہ وہ کبھی بھی ہڑتال نہیں کریں گے لہٰذا ان کو اپنی آسامیوں پر بحال کیا جائے امریکی صدر نے پھر اپنی شرائط پر ان کو بحال تو کر لیا پر بحال کرنے سے پہلے ان کا ڈ نک نکال لیا۔حکومت کو چاہئے کہ ایسے پائلٹوں کے خلاف بھرپور کاروائی کرے کیونکہ وفاقی وزیر کی جانب سے قومی اسمبلی میں262 جعلی لائسنس رکھنے والے پائلٹوں کے ذکر کے بعد عالمی میڈیا اداروں نے ان خبروں کو اپنی اشاعتوں میں شامل کیا ہے مطلب یہ ہوا کہ پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے پوری دنیا سمجھتی ہے کہ پاکستان کے پائلٹ نااہل ہیں اسلئے ان کے خلاف اب کاروائی ضروری ہو گئی ہے۔