عمران خان کو اب یقینا اس بات کا اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اس ملک کا سیاسی میدان کس قدر آلودہ ہو چکا ہے آغا شورش کاشمیری نے تو بہت پہلے سمندر کو یہ کہہ کر ایک کوزے میں بند کر دیا تھا جب انہوں نے یہ شعر کہا”میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو‘گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں اب ان کو سوفیصد یقین ہو چکا ہوگا کہ اس ملک کی سیاست میں کوئی بھی حرف آخر نہیں ‘کسی بھی سیاسی اتحادی پر یقین کرنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے اور جو حکومت دوسری سیاسی جماعتوں کی مہیا کردہ بے ساکھیوں پر کھڑی ہو اسے تو بالکل کسی بھی اتحادی پر مکمل اعتبار نہیں کرنا چاہئے‘ وہ گرگٹ کی طرح کسی وقت بھی اپنا رنگ بدل سکتے ہیں گزشتہ اتوار کی شب وزیر اعظم صاحب کو یقینا یہ جان کر دکھ ہوا ہوگا جب ا نہیں یہ بتایا گیا ہوگا کہ ان کی بعض اتحادی سیاسی پارٹیوں کے سربراہ ان کی طرف سے دئیے گئے عشائیے میں شرکت نہیں کر رہے اگر ان کو شعر و شاعری سے ذرا سا بھی شغف ہے۔
تو ان کے ذہن میں یہ شعر ضرور آیا ہوگا کہ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے عمران خان نے 2018 کے الیکشن کے بعد ان موقع پرست سیاستدانوں کو کہ جنہیں سیاسی زبان میںelectables کہتے ہیں کوساتھ لے کر حکومت تو بنا ڈالی پر انہیں یہ خیال نہیں آیا یا کسی نے نہیں بتایا کہ اس قسم کے موقع شناس اور ہوا کے رخ پر چلنے والے سیاستدان کسی بھی حکمران کے وفادار نہیں ہوتے جیسے ہی ان کو پتہ چلتا ہے کہ حکومت ڈانوں ڈول ہو رہی ہے تو وہ حکومت کی کشتی سے سب سے پہلے چھلانگ لگا دیتے ہیں وہ اتحادی جوعمران خان سے ناراض دکھائی دیتے ہیں ان کو راضی کرنے کےلئے عمران خان کو شاید کئی امور میں یو ٹرن لینا پڑے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس ملک کے عوام کی نظر میں ان کی وقعت کافی کم ہو سکتی ہے قطع نظر اس بات کے کہ عمران خان نے تمام ان بڑے بڑے سیاستدانوں کے خلاف میگا کرپشن کے کیسز کھول کر اچھا کیا یا برا کیا پر یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے اس ملک کی معیشت کو گزشتہ چالیس سالوں میں ڈبویا ہے۔
ان سب کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر کے عمران خان نے جیسے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر زیادہ سے زیادہ آئندہ چھ ماہ کے اندر اندرمتعلقہ اداروں نے جو ان کے خلاف میگا کرپشن کے کیسز کی سماعت کر رہے ہیں اپنے فیصلے نہ سنائے تو اس ضمن میں کیا گیا تمام اچھا کام بھی ان کی غفلت کی نذر ہو جائے گا اور تمام ملزمان کو یہ موقع مل جائے گا کہ وہ میڈیا پر قوم کے سامنے آکر اپنی انگلیوں سے وکٹری سائن بنائیں اور عوام کو یہ تاثر دیں کہ ہم نہ کہتے تھے ہمارے خلاف جھوٹے کیس بنائے گئے ہیں عمران خان کو اقتدار تو ملا پر ان کی بدقسمتی یہ تھی کہ ان کی پارلیمنٹ میں عددی قوت اتنی نہ تھی کہ وہ ازخود اپنی پارٹی کی نشستوں کے بل بوتے پر حکومت بنا سکتے اور انہیں دیگر سیاسی پارٹیوں کی بیساکھیوں کی ضرورت نہ پڑتی مخلوط حکومتوں میں میں کبھی بھی حکومت وقت اس طرح ڈیلیور نہیں کر سکتی کہ جس طرح وہ چاہتی ہے اسے بہ امر مجبوری اپنے اتحادی سیاسی پارٹیوں کے ناز اٹھانے پڑتے ہیں اور نخرے بھی اور اکثر ان کی بلیک میلنگ کا شکار بھی ہونا پڑتا ہے کہ جس طرح آجکل عمران خان ہو رہے ہیں ۔