بات تو سچ ہے

وزیر شہری ہوابازی غلام سرور خان نے پارلیمنٹ کے فلور پرکراچی میں پی آئی اے کے حالیہ حادثے کے بارے میں ابتدائی رپورٹ میں درج بعض حقائق کو طشت از بام کیا انہوں نے کھری کھری باتیں سنائیں پر لگتا ہے کہ یہ سچائی ان کو راس نہ آئی اور ان کی یہ باتیں ان کے گلے پڑ گئی ہیں ¾ پروین شاکر نے ایک جگہ کہا تھا کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے ¾ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی ¾پی آئی اے کے پائلٹوں کے جعلی لائسنسوں کا قصہ اتنا مشہور ہوا کہ یورپی یونین کی سیفٹی ایجنسی نے اس کا یورپ میں فضائی آپریشن چھ مہینے کے لئے معطل کر دیا ہے ¾ ادھرملائیشین سول ایوی ایشن اتھارٹی نے بھی پاکستانی پائلٹوں کو جہاز اڑانے سے روک دیا ہے ۔ ملائیشین سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اس سلسلے میں تمام ہوا بازی کے اداروں کو مراسلہ ارسال کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ پابندی عارضی طور پر لگائی گئی ہے۔پاکستان سول ایوی ایشن سے 3 جولائی تک پائلٹوں کی مکمل تفصیلات مانگی گئی ہیں ¾یار لوگ غلام سرور خان کو اب یہ طعنہ دے رہے ہیں کہ انہوں نے سچ سچ باتیں کرکے پی آئی اے کے خلاف خود ہی ایف آئی آر کٹوا دی ہے ¾کئی لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اگر غلام سرور خان خاموشی سے پی آئی اے کو راہ راست پر لانے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھاتے اور اس کی خامیوں اور کمیوں پر سے اتنا زیادہ پردہ نہ اٹھاتے تو شاید یہ دن ہماری قومی ایرلائن کو دیکھنے نہ پڑتے پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی غلط مت کام قومی ائیر لائن میں کسی وجہ سے ہوتا رہا ہے۔

 تو اسے کب تک اور کیسے آج کے زمانے میں لوگوں سے چھپایا جا سکتا ہے کہ جب پاکستان کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر بھی میڈیا اس حد تک آزاد ہے کہ اب پرائیویسی نامی کوئی شے باقی رہی ہی نہیں اور پھرآخر کیوں ہم ان غلطیوں پر پردہ ڈالیں جن کی وجہ سے اب تک پاکستان کی ایئر لائنزبے پناہ نقصان اٹھا چکی ہے اور اگر اب بھی ہم نے اپنی کمیوں کو پورا نہ کیا تو مستقبل میں پی آئی اے مزید نقصانات اٹھا سکتی ہے ¾ اگر غلام سرور خان پی آئی اے کی خامیوں پر سے چادر نہ ہٹا تے تو دنیا کے کسی ملک کا میڈیا یہ کام کر دیتا تو پھر اس صورت میں ہماری بھلا کیا عزت رہ جاتی ¾پی آئی اے ہو یا پاکستان سٹیل مل ¾پاکستان ریلویز ہو یا اسی قسم کا کوئی اور سفید ہاتھی ¾وقت آچکا ہے کہ اب ان کو درست کرنے کے لئے سخت ترین قسم کے فیصلے کئے جائیں ¾بھلے سیاسی طور پروہ انتہائی نا مقبول قسم کے فیصلے کیوں نہ ہوں کسی نہ کسی کو تو اب کڑوا گھونٹ لینا پڑے گا ¾اب تک ہر حکومت اس ضمن میں سخت فیصلے لینے سے کتراتی رہی تھی کیوں کہ اسے ملک کی معیشت سے اپنے ووٹ بینک کا زیادہ خیال تھا ¾اسی قسم کی سیاسی مصلحتوں نے اس ملک کی معیشت کا خانہ خراب کیا ہے۔

جہاں ستیاناس وہاں سوا ستیاناس ¾پی آئی اے پہلے ہمیں بھلا کیا فائدہ پہنچا رہی تھی جواب یورپی ممالک کی طرف اس کی پروازوں میں رکاوٹ سے کوئی خاص فرق پڑے گا ¾ہم تو ایک عرصہ دراز سے پی آئی اے کی صرف تنزلی کی کہانیاں ہی پڑھ رہے ہیں اور اس کی مالی زبوں حالی کے بارے میں ہی چرچے سن رہے ہیں ¾ہماری قومی ایئرلائن کبھی بھی تباہ و برباد نہ ہوتی اگر اس کو ایک کمرشل ادارے کی طرح چلایا جاتا اس میں صرف اتنے ہی لوگ بھرتی کئے جاتے کہ جو واقعی اس کو چلانے کے لئے ضروری تھے اور سیاسی طور پر اس میں کسی قسم کی بھرتی نہ کی جاتی ¾اب تو یہ عالم ہے کہ پہلے تو مختلف وجوہات کی وجہ سے اسے منافع ہی نہیں ہو رہا اور اگر کچھ تھوڑا بہت ہوتا بھی ہے تو وہ عملے کی تنخواہوں کی نذر ہو جاتا ہے ¾پھر پروفیشنلزم نام کی کوئی شے اب اس میں باقی نہیں رہی ¾ پی آئی اے کو جرمن اور سنگاپور اور اسی قسم کی دوسری ایئر لائنز سے سبق لینا چاہیئے جنہوں نے تھوڑے سٹاف اور عمدہ کارکردگی کی وجہ سے ایئر لائنز انڈسٹری میں اپنے لئے ایک خاص مقام بنا لیا ہے ۔