جن جن سیاسی پارٹیوں کے رہنما 2018 کے عام انتخابات میں شکست خوردہ ہوئے تھے انہوں نے گزشتہ دو برس نہایت کرب اور تکلیف میں گزارے ہیں ان کی مثال اس تڑپتی مچھلی کی طرح ہے جسے پانی سے نکال کر خشکی پر پھینک دیا گیا ہو 5 سال تک گوشہ تنہائی میں رہنا تو کجا ان کے لیے تو ایوان اقتدار سے دو سال دور رہنا بھی ایک عذاب ثابت ہوا ہے قرائن و شواہد سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں کے بعض رہنما آپس میں خفیہ اور کھلی ملاقاتیں کر رہے ہیں جوں جوں کورونا کی شدت میں کمی آتی جائے گی ان کی سرگرمیوں میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جائے گا پارلیمانی جمہوریت میں اپوزیشن پارٹیوں کا وجود لازمی ہوتا ہے پر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اپوزیشن براے اپوزیشن نہیں ہونی چاہئے ایک آئیڈیل پارلیمانی جمہوریت میں تو حکومت وقت کے ساتھ اپوزیشن جماعت یا اپوزیشن جماعتیں شیڈو کابینہ بنا لیا کرتی ہیں جس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ حکومت وقت کی مختلف وزارتوں کی کارکردگی پر گہری نظر رکھے اور اگر کسی وزارت کی کسی پالیسی پر اس کے تحفظات ہوں تو وہ ان کا اظہار کرکے کوئی متبادل پالیسی سے قوم کو آشنا کرے اس قسم کی شیڈو کیبنٹ البتہ صرف ان پارلیمانی جمہوریتوں میں تو بنائی جا سکتی ہے کہ جہاں دو یا زیادہ سے زیادہ تین سیاسی پارٹیاں موجود ہوں پر پاکستان جیسے ملک میں کہ جہاں سیاسی پارٹیوں کا ایک جم غفیر ہو وہاں شاید یہ فارمولا قابل عمل نہ ہو۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت اپوزیشن میں جتنی بھی سیاسی جماعتیں موجود ہیں ان کی پالیسیوں اور سیاسی اور معاشی منشور میں زمین آسمان کا فرق ہے بے شک ان میں ایک قدر مشترک ضرور پائی جاتی ہے اور وہ ہے حکومت وقت کو فوری طور پر ایوان اقتدار سے باہر نکالنا ‘پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت وقت کو اقتدار سے محروم کرنے سے تو اس ملک کے مسائل حل نہیں ہوں گے اس کے لئے تو اپوزیشن کو اس ملک کے عوام کو یہ باور کرانا پڑے گا کہ وہ برسر اقتدار آ گئے تو ان کی پالیسیاں حکومت وقت کی پالیسیوں سے کتنی مختلف ہوںگی اس کے لئے تو انہیں عوام کے سامنے ایک تحریری بلوپرنٹ رکھنا ہوگا جس میں انہیں یہ بتانا ہوگا کہ ان کے پاس کون سا متبادل معاشی پروگرام موجود ہے کہ جو موجودہ حکومت کے معاشی پروگرام سے بہتر ہے اور جس پر عمل درآمد کرنے سے اس ملک کے اندر رہنے والے کروڑوں مفلوک الحال لوگوں کو غربت کی لکیر سے باہر نکالا جاسکے گا جس طرح کہ چین نے گزشتہ 20 برسوں میں 30 کروڑ چینیوں کو غربت کی لکیر سے باہر نکالا کیا یہ حقیقت نہیں کہ ان کی حکومت کا دھڑن تختہ کر کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے بعض سیاسی رہنما جو خواب دیکھ رہے ہیں کیا عوام نے ان کو ایک بار نہیں بلکہ کئی بار نہیں آزمایا اور کیا وہ ڈلیور کرنے میں ناکام نہیں ہوئے کیا ان میں سے اکثر لو گوں کے دامن کر پشن سے داغدار نہیں ‘زبانی جمع خرچی سن سن کر کر قوم کے کان پک چکے ہیں اب وہ سیاست دانوں سے ٹھوس قسم کے تحریری وعدے چاہتی ہے کہ وہ جن میں یہ بتلائیں کہ ان کے پاس آخر وہ کونسی گیڈر سنگھی ہے جو کسی اور کے پاس موجود نہیں اور جن پر عمل درآمد کر کے وہ قوم کی زندگیاں بدل سکتے ہیں۔