کسی نے بالکل درست کہا ہے کہ کوئی سرکاری محکمہ ایسا نہیں جس کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیا جا سکے اکاو¿نٹنٹ جنرل پاکستان ریونیو جس کا مخفف ہے اے جی پی آر ایک وفاقی ادارہ ہے جس کی ہر ضلع تک رسائی ہے کیوں کہ ہر ضلع میں ایک آڈٹ آفیسر موجود ہوتا ہے جس کی تحریری اجازت کے بغیر ضلع کا کوئی بھی سرکاری دفتر کسی چیز کی بھی خریداری نہیں کر سکتا یہ بات آڈٹ آفیسر کے فرائض منصبی میں شامل ہے کہ وہ کوئی بھی خریداری کا بل پاس کرنے سے پہلے سو فیصد تسلی کر لے کہ جس خریداری کی وہ منظوری دے رہا ہے اس میں خریداری کرنےوالے محکمے نے تمام آڈٹ اور اکاو¿نٹس رولز پر کماحقہ عملدرآمد کیا ہوا ہے حکومت جتنی بھی خریداری کرتی ہے اس خریداری کے بل پاس کرنے میں ضلع کے آڈٹ آفیسر کا کلیدی کردار ہوتا ہے اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک چیز جو ہم خود خریدیں تو اس کی قیمت کچھ اور ہوتی ہے لیکن اگر سرکاری طور پر خریدنا چاہیں تو اس کا نرخ کافی زیادہ ہوتا ہے مثال کے طور پر اگر وفاقی حکومت ایک کھرب روپے کی خریداری کرتی ہے تو ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ سو سے لے کر دو سو ارب زیادہ خرچ کیے جاتے ہیں اور یہ سب پیسہ عوام کی جیب سے جاتا ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ دس سالوں کے دوران تقریبا ساڑھے تین سے چار کھرب روپے چیز کی اصل قیمت سے زیادہ خرچ ہوئے کسی منچلے نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر صرف ڈسٹرکٹ کی سطح پر ہی آڈٹ کا نظام سخت کر دیا جائے یا ماضی میں اس ضمن میں سختی کی جاتی تو کرپشن کا نچلی سطح پر ہی کافی حد تک قلع قمع کیا جاسکتا تھا مرکزی اور صوبائی سطح پر ایک سے زیادہ انسپکشن ٹیمیں موجود ہیں مثلا وزیراعظم کی انسپکشن ٹیم‘ گورنر کی انسپکشن ٹیم‘ وزیراعلیٰ کی انسپکشن ٹیم وغیرہ وغیرہ ان انسپکشن ٹیموں کو نہ صرف فعال اور متحرک بنانے کی ضرورت ہے۔
بلکہ سرکاری محکموں کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کے بعد یہ انسپکشن ٹیمیں جو سفارشات مرتب کریں ان پر پھر سختی سے عمل درآمد کی بھی ضرورت ہے حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات کو وسیع پیمانے پر کم کرنے کے ضمن میں یہ بات ارباب اقتدار کے گوش گزار کرنا ضروری ہے کہ اعلی سرکاری افسروں کے زیر تصرف جو سرکاری گاڑیاں ہیں ان کا ناجائز استعمال اب ضرب المثل ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ یار لوگوں میں اکثر سرکاری افسران نے ایک سے زیادہ سر کاری گاڑیوں کو اپنے استعمال کےلئے رکھا ہوا ہے بچوں کو سکول لے جانے اور لانے کےلئے علیحدہ سرکاری گاڑی‘ بیگم صاحبہ کے استعمال کےلئے علیحدہ سرکاری گاڑی اور سبزی منڈی سے سبزی خریدنے کےلئے علیحدہ ‘پھر ان گاڑیوں کے سرکاری ڈرائیور بھی اپنے افسروں سے کچھ کم نہیں ہوتے وہ بھی پھر پٹرول بیچتے ہیں اور گاڑیوں کی فرضی مرمت کے بوگس بل بنواتے ہیں مختصر یہ کہ ہر سال حکومت کو سرکاری اہلکاروں کو ٹرانسپورٹ مہیا کرنے پر اچھی خاصی رقم خرچ کرنی پڑتی ہے‘ تھوڑی سی پلاننگ کے ساتھ اس غیر ضروری خرچے کو ختم کیا جا سکتا ہے اگر اس نظام کو سرے سے ہی ختم کر دیا جائے تو کوئی آسمان نہیں گرے گا‘ وہ سرکاری اہلکار جو قانونی طور پر یا انتظامی طور پر سرکاری گاڑیاں رکھنے کے مجاز ہیں ان کو ایک مناسب ماہانہ ٹرانسپورٹ الاو¿نس دیا جائے جو ان کی تنخواہ کا حصہ بنا دیا جائے‘حقیقت یہ ہے کہ جب تک غیر ترقیاتی اخراجات اور اضافی خرچے کم نہیں کئے جاتے حکومت کے یہ دعوے زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ عوام کی حالت بہتر بنانے کیلئے منصوبہ بندی کررہی ہے‘ اگر غیرترقیاتی اخراجات کم ہوتے ہیں تو اس سے وہ تمام منصوبے پروان چڑھ سکتے ہیں جو ملک کی بقاءاور عوامی بہبود کیلئے ضروری ہیں‘ اس طرف اب سنجیدہ توجہ دینی ہوگی باتوں کا وقت گزر چکا ہے۔