زمانہ بدل چکا پرانی اقدار تبدیل ہو چکی ہیں کل جو تھا وہ آج نہیں اور آج جو ہے وہ کل نہ ہوگا
سکون محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
جس بات کو کل تک معیوب تصور کیا جاتا تھااس پر آج کوئی انگلی نہیں اٹھاتا دور کی بات نہیں ایک وقت تھا کہ جب سرکاری اہلکار خصوصا وہ کہ جس کا انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ سے تعلق ہوتا اگروہ صدر وزیراعظم گورنر یا وزیر اعلی کے آس پاس اس وقت کھڑے ہونے کی کوشش کرتا کہ جب وہ کیمرے کے سامنے تقریر کر رہے ہوتے تا کہ کیمرے کی آنکھ اس کو بھی عوام کے سامنے پیش کر سکے تو ناظرین اس کی اس حرکت کو برا سمجھتے کہ وہ وی آئی پیز کے قرب میں کھڑے ہوکر عوام کے سامنے اپنے نمبر بنا رہا ہے بعض افراد ذاتی پبلسٹی کے سخت بھوکے ہوتے ہیں اور وہ ہر وقت اخبارات کے صفحات میں بھی رہنا چاہتے ہیں اور ٹیلی ویژن سکرین پر بھی صبح شام دکھائی دینا چاہتے ہیں تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس قماش کے پبلسٹی کے خواہاں لوگ جس تیزی سے سیڑھیوں کے اوپر چڑھتے ہیں ۔
وہ پھر کسی دن دھڑام سے زمین پر بھی اسی تیزی سے گر پڑتے ہیں اس قسم کے لوگوں کے نام گنوانے کی چنداں ضروری نہیں ہم روزانہ اس کے تماشے دیکھ رہے ہیں میڈیا پر آکر زیادہ بولنے والوں کا انجام ہمیشہ عبرتناک ہوتا ہے جو دور اندیش اور جہاندیدہ لوگ ہوتے ہیں وہ کیمرے کی آنکھ سے اپنے آپ کو حتی الوسع دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں فرانس کے صدر جنرل ڈیگال کی جو بھی پریس کانفرنس ہوتی وہ پندرہ منٹ سے زیادہ طویل نہ ہوتی ماوزے تنگ شاذ ہی کیمرے کے سامنے آتے جب مغربی میڈیا یہ پروپیگنڈا کرتا کہ وہ سخت بیمار ہیں یا انتقال کر گئے ہیں تو چینی میڈیا اس کے جواب میں ان کی تازہ ترین تصویرشائع کر دیتا جس میں ان کودریا میں نہاتے دکھایا جاتا جس سے وہ پروپیگنڈا اپنی موت آپ مر جاتا ژاں پال سارترے فرانس کے مشہور صحافی بھی تھے نا ول نگار بھی اور فلسفی بھی ایک مرتبہ وہ شام کے وقت اپنے معمول کے واک اور چہل قدمی کے بعد جب اپنے گھر پہنچے تو ان کے گھر کے ڈرائنگ روم میں ان کا ایک جگری یار ان کا انتظار کر رہا تھا سارترے کو دیکھتے ہی اس نے کہا یار کیا تمہیں خبر ہے ابھی ابھی ٹیلی وژن پر میں نے یہ خبر سنی کہ تمہارے ایک ناول پر تمہیں نوبل پرائز دیا جا رہا ہے اس خبر کو بڑی بے نیازی سے سننے کے بعد سارترے نے ایک بہت ہی معنی خیر برجستہ جملہ کہا اور وہ یہ تھا افسوس میں نے گمنامی کی حالت میں مرنے کا موقع گنوا دیا ‘ خدا نے انسان کو صرف ایک زبان جبکہ دو کانوں سے نوازا ہے کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انسان کو بولنا کم اور سننا زیادہ چاہیے ہٹلر کے انفارمیشن منسٹر ڈاکٹر گوئیبلز کا یہ فرمان تھا کہ اتنا جھوٹ بولو کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں آج دنیا کے لوگوں میں اتنا سیاسی شعور ضرور پیدا ہو گیا ہے کہ وہ جھوٹ اور سچ کے درمیان فرق کر سکیں۔یعنی میڈیا نے لوگوں کو اس قدر ہوشیار بنا دیا ہے کہ وہ اب جھوٹ اور سچ میں فرق واضح طور پر سمجھتے ہیں اور یہ کسی کی بھول ہی ہوگی اگر وہ سمجھے کہ میں نے کسی کو اپنی باتوں سے دھوکہ دیا ہے۔