بچے پیدا کرنے میں ہمارا جواب نہیں گزشتہ برس یعنی2019 میں پاکستان میں اوسطا ًہر ایک منٹ میں گیارہ زندہ بچے پیدا ہوئے یعنی تقریبا ہر پانچ سیکنڈ بعد ملکی آبادی میں ایک شہری کا اضافہ ہوا بالفاظ دیگر اس ملک میں گزشتہ برس ساٹھ لاکھ پچاس ہزار زندہ بچے پیدا ہوئے یہ تعداد تقریباً ساڑھے سولہ ہزار روزانہ یا تقریبا سات سو فی گھنٹہ بنتی ہے بہت کم ہم وطنوں کو یہ بات پتہ ہو گی کہ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران اس ملک کی آبادی نا قابل یقین حد تک تیز رفتار اضافہ سے تقریبا ًچھ گنا ہو چکی ہے اور آج جنوبی ایشیا کی یہ ریاست دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکاہے‘ ایوب خان اس ملک کے پہلے حکمران تھے جنہوں نے آج سے ساٹھ برس پہلے اس معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ملک میں آبادی کو کنٹرول میں رکھنے کا پروگرام شروع کیا ہمیں اچھی طرح یاد ہے بعض حلقوں کی جانب سے ان کے اس منصوبے کی مخالفت میں آسمان سر پراٹھایا ہوا تھا اگر ان کے اس پروگرام میں روڑے نہ اٹکائے جاتے اور ان کے بعد اس ملک میں برسر اقتدار آنے والے لوگ بھی اس معاملے میں اسی دلجمعی کا مظاہرہ کرتے تو آج ہم اس مسئلے کا شکار نہ ہوتے بے پناہ آبادی ملک کے مختلف شعبوں میں ترقیاتی کاموں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے ۔1949 میں جب ماوزے تنگ اور ان کے ساتھی چین میں برسر اقتدار آئے تو ان کو ورثے میں کئی مسائل ملے جن میں سرفہرست بے پناہ آبادی کا مسئلہ تھا اب ہم یہ تو تجویز نہیں کر سکتے کہ انہوں نے اپنے ملک میں جس طریقے سے آبادی کو کنٹرول کیا وہی طریقہ وطن عزیز میں بھی لاگو کیا جائے کہ ایسا کرنے سے حکومت وقت کےلئے دیگر اورمسائل اٹھ کھڑے ہو جائیں گے کہ جس طرح ایوب خان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے پر وقت آگیا ہے کہ اس ملک کا ہر سیاسی لیڈر بھلے اس کا تعلق کسی بھی مکتبہ فکر سے کیوں نہ ہو وہ اس معاملے میں اپنے رویے میں تبدیلی لائے اپنی سوچ بدل لے کیوں کہ کل کلاں جو لوگ بھی اس ملک میں برسر اقتدار ہوں گے یہ مسئلہ ان کو حل کرنا ہوگا۔
یہ کسی ایک پارٹی کا مسئلہ نہیں ہے یہ قوم اور ملک کا سانجھا مسئلہ ہے ‘اگر ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کو بریک نہ لگائی گئی تو کوئی حکومت بھی اس ملک کو صحیح معنوں میں فلاحی ریاست نہیں بنا سکے گیءلوگوں کا پیٹ بھرنے کے لیے نہ وافر خوراک ہوگی اور نہ ان کے علاج معالجے کے لیے مناسب طبی سہولیات اور نہ ہی اس ملک کے ہر بچے اور بچی کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جا سکے گا ہمارامقصد یہ ہرگز نہیں کہ ایوب خان کی شان میں قصیدہ لکھا جائے پر یہ ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے جہاں شترِ بے مہار قسم کی آبادی کو کنٹرول کرنے کےلئے بروقت سوچا وہ اس ملک کے پہلے حکمران تھے کہ جنہوں نے یہ محسوس کیا کہ اگر فوری طور پر ڈیم نہ بنائے گئے تو یہ ملک پانی کے بحران کا شکار ہو جائے گا یہ تو شکر کیا جائے کہ ان کے دور میں چند ڈیمز بن گئے ورنہ آج ہماری حالت بد سے بدتر ہو چکی ہوتی ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ آج کل کے سیاستدان اور مدبر میں فرق یہی ہوتا ہے کہ آج کاسیاست دان کل کے بارے میں زیادہ نہیں سوچتا کم از کم آبادی پر کنٹرول اور ڈیمزکی تعمیر کے بارے میں ایوب خان کی سوچ مدبرانہ تھی یہ خیال اگر ان کو آ سکتا تھا تو بعد میں آنے والے حکمرانوں کو کیوں نہ آیا بعض سیاسی مبصرین کا تو یہ خیال ہے کہ اگر ایوب خان بنیادی جمہوریتوں کے نمائندوں کو صدارتی انتخاب کے لیے الیکٹورل کالج نہ بناتے اور ان کو وہ صرف اور صرف بنیادی سطح یعنی گراس روٹ لیول پر ترقیاتی کاموں کےلئے ہی استعمال کرتے اور صدارتی الیکشن وہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر کرواتے تو شاید وہ نظام ان نظاموں سے بہتر ہوتا کہ جن کے تجربات سے یہ ملک گزرا اور جنہوں نے ڈیلیور نہیں کیا بہرحال یہ اپنی اپنی سوچ کی بات ہے ۔