پاک افغان بارڈرمینجمنٹ

 ہندو بنیا بڑا کایاں ہوتا ہے اس کی دور کی نظر بڑی تیز ہوتی ہے اس سے پیشتر کہ ہم آج کے کالم کے مرکزی موضوع کے بارے میں رقم طراز ہوں بھارت کی چاہ بہار بندرگاہ کے بار ے میں پالیسی میں جو شفٹ دکھائی دے رہی ہے اس کا ہلکا سا ذکر کردیں بھارت نے جب محسوس کیا کہ اگر وہ ایران میں مزید کوئی سرمایہ کاری کرے گا تو اس کا موجودہ مربی امریکہ نالاں ہو سکتا ہے تو اس نے فوراً چاہ بہار بندرگاہ کے منصوبے میں مزید سرمایہ کاری کرنے سے اپنے ہاتھ کھینچ لئے جس سے ظاہر ہے پھرایران نے ناراض ہوکر چین کی طرف راغب ہونا تھا کہ وہ اس وقت دنیا کا واحد ملک ہے جو تیسری دنیا میں میں کھلے دل سے سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے ‘اس جملہ معترضہ کے بعد عرض ہے کہ اگر نائن الیون کے واقعے کے ظہور پذیر ہونے کے بعد امریکی حکام اپنا ہوم لینڈ سکیورٹی کا نظام وضع نہ کرتے تو امریکہ کے اندر اس قسم کے کئی واقعات رونما ہو سکتے تھے ‘اسی طرح لندن کے اندر جب تخریب کاروں نے کاروائیاں کیں تولندن کی پولیس کو جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے پڑے انسانی حقوق کے بعض ترجمانوں نے اسے پرائیویسی کی خلاف ورزی قرار دیا پر برطانوی حکومت کے پاس اس سے بہتر کوئی چارہ نہ تھا کہ جس سے وہ دہشت گردی پر قابو پا سکے آمدم بر سر مطلب ایک عرصے سے پاک افغان بارڈر کے دونوں اطراف سے آزاد نقل و حرکت ہورہی تھی پوچھ گچھ کا کوئی بھی سائنٹیفک نظام نہ تھا اس صورتحال سے سب سے زیادہ فائدہ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے اٹھایا اور اس کے توسط سے وہ وطن عزیز میں تخریبی کاروائیاں کرتا آیا ہے۔

کابل اور قندھار میں ہمارے سفارتخانوں پر کئی مرتبہ حملے بھی کروائے گئے دوسری طرف پاکستان کی حکومتوں کی دریا دلی کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ افغانستان میں بسنے والے اپنے بھائیوں کی زندگیوں کو آسان بنانے کے لئے انہوں نے ہمیشہ وہاں خوراک ادویات اور دیگر اشیائے صرف کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان اشیا ءکی سپلائی کو افغانستان میں یقینی بنایا وہ اس لئے کہ افغانستان کا شمار زرعی طور پر کمزور ممالک میں ہوتا ہے ‘پاکستان کے ارباب بست و کشاد نے محسوس کیا کہ بہت ہوچکی اب ہمیں اس دروازے پر کنڈی لگا دینی چاہیے جو اب تک کھلا تھا اور جس راستے سے افغانستان سے بغیر کسی پوچھ گچھ اور پاسپورٹ اور ویزا کے بغیر افغانی پاکستان آیا جایا کرتے چنانچہ سابقہ فاٹا سے منسلک پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کا کام شروع کر دیا گیا یہ کوئی آسان کام نہیں تھا‘ چترال سے لے کر وزیرستان تک 830 کلومیٹر سرحد ہے اس پر باڑ لگانا اور پھر اس پر کڑی نظر رکھنے کےلئے قلعے تعمیر کرنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں تھا ‘تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب تک پاک افغان بارڈر مینجمنٹ کے سلسلے میں مندرجہ بالا نوعیت کا کام تسلی بخش ہے۔

 ہمیں یہ بات ملحوظ خاطررکھنی چاہیے کہ ڈیورینڈ لائن دنیا کے مشکل ترین جغرافیائی محل وقوع رکھنے والے علاقے میں کھینچی گئی تھی پاک افغان بارڈر مینجمنٹ کے تحت ڈیورنڈ لائن پر 400 سے زائد فوجی قلعے بھی تعمیر کئے جائیں گے اور پھر ان کو بھی فنکشنل کیا جائے گا ان میں فوجی جوان تعینات کرنا اور پھر ان کو دشوار ترین راستوں سے راشن پہنچانا بھی جان جوکھوں کا کام ہے ‘افواج پاکستان نہایت بہادری اور مہارت سے یہ کام سرانجام دے رہی ہے اس قسم کی بارڈر مینجمنٹ کے سو فیصد مثبت نتائج تب ہی برآمد ہو سکتے ہیں اگر ان کے ساتھ پاکستان میں داخلے کا ایک منظم نظام بھی وضع کیا جائے ہرقسم کی انٹری پاسپورٹ اور ویزا سسٹم کے تابع ہو اور ہر کسی کو اجازت نہ ہو کہ وہ پاکستان کے اندر ڈیورنڈ لائن کے رستے داخل ہو سکے ذرا کوئی اتنی آسانی سے بھارت یورپ اور امریکہ کے اندر بھی داخل ہو کر تو دکھائے کہ جس آسانی سے وہ افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے یہ بھی ضروری ہے کہ اب تک ڈیورنڈ لائن پر افواج پاکستان نے جو باڑ لگائی ہے یا جو قلعے تعمیر کئے ہیں ان پر ایک دستاویزی فلم بنا کر ٹیلی ویژن چینلز اور سینما ہاو¿سز میں دکھائی جائے تاکہ اس ملک کے ہر خاص و عام کو پتہ چلے کہ اس ملک میں تخریب کاروں کے خاتمے کے لئے اس باڑ کا لگانا کتنا ضروری تھا۔