کتنی حیرت کی بات ہے کہ فوڈ سیکورٹی کے وزیر کو یہ پتہ ہی نہیں کہ ملک میں آٹاکیوں مہنگا فروخت ہو رہا ہے کیا ہم اسے ان کا تجاہل عارفانہ سمجھیں موصوف فرماتے ہیں کہ یہ عجوبہ ہے کہ پہلی مرتبہ اتنی گندم آئی مگر گئی کہاں 60 لاکھ ٹن گندم خریدی گئی پر گئی کہاں 15 لاکھ ٹن کی کمی تھی سات لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے جا رہے ہیں‘ پنجاب کی حد تک 17 سے 18 سو روپے فی من تک گندم مل رہی ہے کسانوں سے چودہ سو کی لی گئی اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ڈیورنڈ لائن پر چونکہ ابھی تک سو فیصد کنٹرول نہیں ہو سکا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان کی بڑی حد تک گندم کی ضروریات پاکستان پوری کرتا ہے جس میں سمگلنگ کا ایک بڑا عنصر شامل ہے لہٰذا ہر سال ربیع اور خریف کی فصلوں کی کٹائی کے بعد بے پناہ گندم پاکستان سے افغانستان سمگل کی جاتی ہے ۔ مقام افسوس ہے کہ چونکہ من حیث القوم ہم میں اخلاقیات کافقدان ہے ہم سمگلنگ کی لعنت سے آج تک اپنے آپ کو چھڑا نہیں سکے ‘مقام افسوس ہے کہ وزیر اعظم کے غیر مبہم احکامات کے باوجود گندم مافیا انھیں ناکام بنا رہا ہے جس نے کئی ملین ٹن گندم کا ذخیرہ کررکھا ہے‘ اس مافیا نے چودہ سو روپے فی من برائے راست کاشتکاروں سے گندم خرید کر ان کو فوری طور پر قیمت کی ادائیگی کی اور آج یہ منافع خور سات سو روپے فی 40 کلو گرام تک غیر قانونی منافع کما رہے ہیں اور ان کی سرپرستی گندم مافیا کے بڑے بڑے لوگ کر رہے ہیں یہ نہایت ضروری ہے کہ حکومت نے غیر قانونی ذخیرہ اندوزی اور مقرر کردہ آٹے کی قیمت سے زیادہ وصول کرنےوالے ملک دشمن عناصر کے خلاف جو کریک ڈاو¿ن شروع کیا ہوا ہے اس کی روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جانی چاہئے تاکہ عوام کو پتہ چل سکے کہ یہ کالی بھیڑیں کون ہیں وہ دعوے سے کہتے ہیں کہ پورے پنجاب کی فلور ملوں میں اپنی ضرورت کے علاوہ کوئی گندم نہیں ہے۔
اگر گندم ہوتی تو راولپنڈی ڈویژن گوجرانوالہ ڈویژن لاہور ڈویژن اور سرگودھا ڈویژن میں چودہ سو روپے من گندم خریدنے والے ذخیرہ اندوزوں سے ساڑھے انیس سو سے سوا 21 سو روپے فی 40 کلو گرام گندم خرید کرسپر فائن آٹا 1370 روپے فی 25 کلو نہ بیچ رہے ہوتے۔جن کالی بھیڑوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان کے ناموں کو قومی میڈیا پر مشتہر کرنا بھی نہایت ضروری ہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے ۔ افغانستان کی خوراک کی ضروریات کو بھی کافی حد تک ہم پورا کرتے ہیں جن میں آٹے سے لے کر چینی گندم چاول وغیرہ غرضیکہ ہر قسم کی اشیائے خوردنی شامل ہیں یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ بعض اشیائے صرف کی تجارت کے علاوہ پس پردہ سمگلر مختلف قسم کی اشیائے صرف افغانستان سمگل کرتے ہیں اور اس سمگلنگ میں ڈیورنڈ لائن پر متعین پاکستان کے مختلف محکموں کا عملہ برابر کا شریک ہے جن کی سمگلر کا فی حد تک مٹھی گرم کر دیتے ہیں جب تک کسی جدید سائنسی طریقے سیٹلائٹ سسٹم وغیرہ سے ان راستوں کی نگرانی کرکے اور سمگلنگ میں ملوث پائے جانے والے افراد کی پراپرٹی ضبط کر کے انہیں نشان عبرت نہیں بنایا یا جائے گا اورسمگلروں اور ان کی اعانت کرنے والوں کو قرار واقعی سزا نہیں دی جائے گی کہ جس طرح چین میں دی جاتی ہے تب تک سمگلنگ کی لعنت کو ملک سے ختم نہیں کیا جا سکے گا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قوانین موجود ہیں تاہم ان پر عملدرآمد کرنے کی کمی ہے سمگلنگ کے حوالے سے جو قوانین موجود ہیں اگر ان پر عملدرآمد کیا جائے تو اس مسئلے کا بڑی حد تک تدارک ممکن ہے۔