چربہ اورجعل سازی

 یہ ان دنوں کی بات ہے جب اس ملک میں پروفیشنل کالجز میں داخلہ کے لیے انٹری ٹیسٹ کا نظام ابھی لاگو نہیںہوا تھا اور انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں طلباءاور طالبات جو نمبر سکور کرتے ان ہی کی بنیاد پر میرٹ کے حساب سے ان کوان کالجوں میں داخلہ دیا جاتا اس زمانے میں انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں بڑی مشکل سے جا کر کہیں سٹوڈنٹس ایف ایس سی میں 700 نمبر حاصل کرتے پر اس زمانے میں ایسا بھی ہوا کہ سندھ کے بعض انٹرمیڈیٹ اور سیکنڈری بورڈ زایف ایس سی میں نو نو سو کے قریب قریب نمبر طلباوطالبات کو دینے لگے ایک مرتبہ تو ایک اعلیٰ عدالت کے ایک جج صاحب نے ایک کیس کی کاروائی کے دوران یہ ریمارکس دئیے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ سندھ کے انٹرمیڈیٹ اور سیکنڈری ایجوکیشن بورڈز ایف ایس سی میں طلبہ و طالبات کو تھوک کے حساب سے اتنے زیادہ نمبر کیسے دیتے ہیں یہ بڑا معنی خیز جملہ تھا چناچہ اس ملک کے دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے طلباءو طالبات جو پروفیشنل کالج میں داخلے کے خواہشمند تھے انہوں نے سندھ انٹرمیڈیٹ و سیکنڈری ایجوکیشن میں اپنا مائیگریشن کروا نا شروع کر دیا اور پھر سندھ کے کسی تعلیمی ادارے کے توسط سے وہ ایف ایس سی کے امتحان میں بیٹھ گئے اور زیادہ نمبر سکور کرکے پھر پروفیشنل کالجز میں داخل ہوگئے ۔

اس طریقے سے ملک میں جعل سازی اور دو نمبری طریقہ سے ڈگریوں کے اجراءکا سلسلہ شروع ہو گیا آج پوزیشن یہ ہے کہ ہمارے ہر تعلیمی اور امتحانی ادارے کی جاری کردہ ڈگری کو شبہ کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ یہ جعلی نہ ہو اور کہیں اس میں دو نمبری نہ کی گئی ہو ظاہر ہے کہ جو ڈاکٹر انجینئر یا پائلٹ دو نمبری طریقے سے ڈاکٹر انجینئر یا پائلٹ بنے گا وہ پھر ہزاروں انسانی جانوں سے نہیں کھیلے گا تو کیا کرے گا اس ضمن میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کو احتیاط کا دامن تھام لینا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی صفوں میں بھی ایسی کالی بھیڑیں گھس آئی ہوں کہ جو جعلی ڈگریوں کے اجرا کی تحقیقات میں کہیں ڈنڈی مار کر ان کو جائز قرار دےکر اپنی مہر لگا کر ان کی تصدیق نہ کردیں اگر ایسا ہوگیا تو یہ اس ملک کے تعلیمی نظام پر ایک خود کش حملے سے کم نہ ہوگا ہم بچپن میں ایک محاورہ پڑھا کرتے جو کچھ اس طرح تھا کہ باپ کرے نہ بھیا جو کرے روپیہ اب یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ روپے میں کتنی قوت ہے اس سے ہر چیز خریدی جاسکتی ہے اور اس سے وقتی طور پر کئی فائدے بھی حاصل کیے جا سکتے پر لانگ ٹرم میں یہ روش قوم اور ملک کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے اس ملک میں کئی امور ایسے ہیں کہ جن کے حوالے سے مناسب قانون سازی کی ضرورت ہے ۔

مثلا ًان پی ایچ ڈی سکالرز کو قرار واقعی سزا ملنی چاہئے کہ جو اپنی ڈاکٹریٹ کی تھیسز لکھنے کے دوران چربہ سازی اورکسی پرانے محقق کے تحریری کام کی نقل کرتے رنگ ہاتھوں پکڑے جائیں اس قسم کے چوروں کےلئے یہ سزا کافی نہیں کہ ان کے خلاف جرم ثابت ہونے پر بس صرف ان کا ایک پے سکیل کم کرکے انہیں نچلے گریڈ میں تعینات کر دیا جائے قرار واقعی سزا کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انہیں نوکری سے برخاست کیا جائے اور قید بھی کیا جائے انہیں نشان عبرت بنایا جائے تاکہ کسی کو بھی پھر جرا ت نہ ہو کہ وہ پی ایچ ڈی کرتے وقت چربہ سازی جیسی گھٹیا حرکت کا مرتکب ثابت ہو قصہ کوتاہ وطن عزیز کے معاشرے کو گہن لگ چکا ہے اس سے کوئی بھی ادارہ محفوظ نظر نہیں آتا جس پتھر کو اٹھاو¿ اس کے نیچے آپ کو کرپشن ملے گی کوئی جائز کام بھی کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے میں نہیں ہوتا جب تک آپ متعلقہ اہلکار کی مٹھی گرم نہ کردیں چونکہ ایک عرصہ دراز سے سزا و جزا کے عمل پر اس ملک میں عمل درآمد نہیں ہو رہا لوگوں کے دلوں سے قانون کا خوف ختم ہو چکا ہے۔