اصلاح احوال

 جس ملک کے صرف ایک ائرپورٹ پر چھ ماہ کے اندر قومی ائرلائن کے جہازوں کے ساتھ پرندوں کے ٹکرانے کے 22 واقعات رونما ہوئے ہوں اور جس ملک کے وزراءعوام سے یہ کہیں کہ وہ آٹا اور چینی کے ذخیرہ اندوزوں کے گوداموں کی نشاندہی کریں تو اس ملک کے حکمرانوں کے مائنڈ سیٹ اور اس حکومت کی کارکردگی کے بارے میں آپ کیا اندازہ لگائیں گے ‘دنیا بھر میں یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی ائرپورٹ کے چاروں طرف ایک مخصوص فاصلہ کے اندرکسی بھی ریائشی آبادی کی اجازت نہیں دی جاتی کہ اس سے لامحالہ وہاں پھر پرندوں کی آمد و رفت شروع ہو جاتی ہے جو کسی وقت بھی ایر پورٹ پر لینڈ یا ٹیک آف کرتے ہوئے جہازوں سے ٹکرا کر انسانی زندگیوں کے لئے خطرے کا باعث بن جاتے ہیں وطن عزیز میں کسی بھی حکومت نے اس اہم نکتے پر غور نہیں کیا حتیٰ کہ جو نئے ائرپورٹ بنے ہیں ان میں بھی اس بات کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ‘رہی بات اشیاءخوردنی کے ذخیرہ اندوزوں کی کہ جو اشیاءخوردنی کو اپنے گوداموں میں چھپا کر ان کی پہلے مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کر دیتے ہیں اور بعد میں منہ مانگے مہنگے داموں انہیں مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں تو انکو پکڑنا ان کے گوداموں کو سیل کرنا اور ان سے پکڑے ہوئے مال کو ضبط کرکے نیلام عام کروانا تو انتظامیہ کی ذمہ داری ہے اور پولیس کی ڈیوٹی ہے کہ وہ ان پر چھاپے مارے عوام کا بھلا اس سے کیا لینا دینا‘ حکومت کے نمائندے یہ کہہ کر اپنی جان چھڑا نہیں سکتے کہ عوام ان کی نشاندہی کریں۔

 یہ جو ملک میں سراغ رسانی کے ادارے کام کر رہے ہیں اور یہ جو ہر پولیس سٹیشن میں تھانے داروں کے اپنے مخبرموجود ہوتے ہیں‘ یہ آخر کس مرض کی دوا ہیں ؟کیا یہ ان کی ڈیوٹی نہیں کہ وہ ان گوداموں کا سراغ لگائیں کہ جہاں ذخیرہ اندوزوں نے اشیائے خوردنی کو چھپا رکھا ہے ‘آخر ان سرکاری اہلکاروں کو جو تنخواہیں دی جاتی ہیں وہ ٹیکس دہندگان سے وصول کئے گئے ٹیکسوں سے ہی تو ادا کی جاتی ہیں‘ یہ بات اب طے ہے کہ اس ملک میں پولیس ہو یا کہ پھر اسی قسم کا کوئی اور ادارہ ان کے استغاثے سے تعلق رکھنے والے اہلکار اس معیار پر پورے نہیں اترتے کہ جس پر انہیں اترنا چاہئے یا پھر وہ محنت نہیں کرتے جس کی وجہ سے ان کے نوے فیصد مقدمات عدالتوں میں فیل ہو جاتے ہیں اور ملزم مجرم نہیں بنتے بلکہ انہیں باعزت طور پر شک کا شبہ دے کر رہا کر دیا جاتا ہے‘ ظاہر ہے جب ان کے خلاف موثر شہادت ہی موجود نہ ہو گی اور یا پھر شہادت کو نہایت ہی بھونڈے انداز میں پیش کیا گیا ہوگاتو پھر عدالتوں کے پاس اس کے سوا بھلا اور کیا چارہ ہوگا کہ وہ انہیں شک کا فائدہ دے کر بری نہ کر دیں‘ یہی وجہ ہے کہ جب ملزم عدالتوں سے رہا ہوتے ہیں تو پھر وہ بڑے فخر سے کیمرے کی آنکھ کے سامنے آ کر دو انگلیوں سے ایسے وکٹری سائن بناتے ہیں کہ جیسے انہوں نے کوئی جنگ عظیم جیت لی ہو‘نیب کا ادارہ بنایا اس لئے گیا تھا کہ مقدمات کا زیادہ سے زیادہ چھ مہینے کے اندر فیصلہ کردیا جائے کیونکہ عام عدالتوں میں رش کی وجہ سے کئی سالوں تک اس قسم کے مقدمات لٹکتے رہتے تھے۔