سرمایہ داری کاسفینہ

 ایک عرصہ دراز سے ہم بعض سیاسی رہنماو¿ں کے منہ سے یہ بات سنتے چلے آ رہے ہیں کہ وہ پاکستان کو ایک خالص سوشل ویلفیئر سٹیٹ بنانا چاہتے ہیں ایک ایسی ریاست کہ جس میں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیا کر سکیں یہ باتیں بظاہر تو بڑی دلفریب اور پر کشش ہوتی ہیں اور ان کے کرنے والے بہت جلد ان لوگوں کے دلوں میں اپنا گھر بنا لیتے ہیں کہ جنہیں صبح کا ناشتہ کرنے کے بعد یہ پتہ نہیں ہوتا کہ دوپہر کا کھانا وہ کھا بھی سکیں گے یا نہیں اس ملک میں آج بھی اکثریت ان لوگوں کی ہے کہ بیماری کی صورت میں ہسپتالوں میں ان سے امیروں کے مقابلے میں امتیازی سلوک برتا جاتا ہے ان کو دن میں دو وقت کا کھانا میسر نہیں ‘ان کے سر پر اپنی چھت نہیں وہ سائیکل بھی افورڈ نہیں کر سکتے ‘موٹر سائیکل یا گاڑی تو کجا ملک میں پبلک سیکٹر ٹرانسپورٹ کا کوئی صحیح نظام ہی نہیں اور عوام کی ایک اکثریت نجی سیکٹر میں چلنے والی ویگنوں اور بسوں میں سفر کرتی ہے جنہیں ان میں مال مویشیوں کی طرح بٹھایا جاتا ہے۔

ان تلخ حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے جب ہم بعض سیاسی رہنماو¿ں کو مساوات مساوات کی رٹ لگائے سنتے ہیں تو ہمیں ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی اور وہ اس لئے کہ یہ کیسے ان کے لئے ممکن ہوگا کہ وہ اس ملک کے اندر برابری ‘آزادی اور بھائی چارہ کا نظام قائم کر سکیں جبکہ ہمارا معاشرہ بری طرح مختلف معاشی طبقوں میں منقسم ہے ‘ایک طرف وڈیرہ اور جاگیردار ہے تو دوسری طرف مزارع کیا ان کے درمیان کوئی مساوات اور انصاف قائم کر سکتا ہے جب تک کہ معاشی طور پر یہ ایک دوسرے کے برابر نہ کر دیئے جائیں ایک طرف مل کے مالک اور دوسری جانب ان کے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور ان کی معاشی حالت میں زمین آسمان کا فرق ہے کسی بھی سرمایہ دارانہ نظام معیشت پر چلنے والے ملک میں غریب اور امیر کو ایک نظر سے نہیں دیکھا جاتا ‘فلاحی ریاست کے قیام کی طرف پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ اگر کسی ملک میں چند لوگ دولت کے انباروں پر بیٹھے ہوئے ہیں تو انہیں وہاں سے ہٹایا جائے ایک ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں نہ ہو جاگیرداروں اور بڑی زمینداروں کو صرف اسی صورت میں ختم کیا جا سکتا ہے کہ کسی بھی لینڈ لارڈ کے پاس ڈیڑھ سو ایکڑ سے زیادہ فی نفر زمین نہ چھوڑی جائے اور اسی طرح کسی بھی زمیندار کے پاس پندرہ سو ایکڑ سے زیادہ بارانی زمین نہ چھوڑی جائے۔

بڑے بڑے زمینداروں سے جو بھی زمین نیشنلائز کی جائے اسے ہار یوں اور بے زمین کسانوں میں تقسیم کی جائے ‘ملک کو صحیح معنوں میں فلاحی ریاست بنانے کے لئے دیگر انقلابی قسم کے اقدامات بھی اٹھانے ہوں گے ‘مثلاً یہ کہ ہر قسم کا سامان تعیش جس پر ہر سال ہم بے پناہ زرمبادلہ خرچ کر دیتے ہیں اس کی درآمد پر فوری پابندی لگانی ہوگی اس ملک کے باسیوں کو لمبی چوڑی بڑی گاڑیوں اور جیپوں کے استعمال کا کوئی حق حاصل نہیں کہ جہاں آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہو حکومت کو اس کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کو منظم طریقے پر چلانے کی کوشش کرنا ہوگی تاکہ اس ملک کا عام آدمی ٹرانسپورٹ کے معاملے میں کسی مشکل کا شکار نہ ہوجب آپ معاشرے میں بسنے والے تمام طبقوں کے افراد کے درمیان موجودہ معاشی اونچ نیچ کی دیوار کو گرا دینگے تو اس صورت میں پھر اس ملک کو صحیح معنوں میں فلاحی مملکت بنایا جا سکتا ہے کہ جس کا عملی مظاہرہ ہم ناروے ‘ڈنمارک ‘سویڈن ‘برطانیہ اور کینیڈا وغیرہ جیسے ممالک میں دیکھ رہے ہیں ۔