چند روز قبل سپریم کورٹ نے نیب کی کارکردگی کے بارے میں چند سوالات اٹھائے تھے چند دن قبل نیب کے چیئرمین نے ان سوالات کے جوابات عدالت عظمیٰ میںجمع کراتے ہوئے اس بات کا رونا رویا ہے کہ نیب کے پاس کرپشن کے کیسز کا انبار ہے موجودہ نیب عدالتوں کی جو تعداد ہے وہ ان کا 30 دنوں کے اندر اندر فیصلہ نہیں کر سکتیں انہوں نے سپریم کورٹ کو یہ بھی بتلایا ہے کہ اس ضمن میں انہوں نے حکومت سے بارہا استدعا کی ہے کہ وہ ان عدالتوں کی تعداد میں اضافہ کرے اور اگر حاضرسروس سیشن جج ان عدالتوں کے لیے میسر نہیں کیے جا سکتے تو اس مقصد کے لیے ریٹائرڈ سیشن ججوں کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں انہوں نے اس بات کا بھی شکوہ کیا ہے کہ عدالتیں نیب کے قانون کے بجائے ظابطہ فوجداری پر عمل کرتی ہیں اور حکم امتناعی اور ضمانتوں کے کیسز میں سپریم کورٹ کے اصولوں پر کماحقہ عمل نہیں کیا جاتا ان کے مطابق120 نئی احتساب عدالتیں قائم کرنے کے لئے 2.86 ارب روپے کی ضرورت ہوگی بادی النظر میں نیب کے چیئرمین کے اکثر جوابات کافی وزنی ہیں اور حکومت وقت کو انہیں سنجیدگی سے لینا چاہئے دیگر سیاسی اداروں کی طرح عدلیہ میں بھی وسیع پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے کیونکہ وہی معاشرہ خوشحال رہ سکتا ہے کہ جس میں انصاف کا بول بالا ہو اور جس میں جزا و سزا کے اصولوں پر فوری طور پر عمل درآمد ہوتا ہو دوسری جنگ عظیم کے دوران تقریبا تین چار سال تک جرمن بمبار طیارے انگلستان کے بڑے بڑے شہروں پر مسلسل دن رات بمباری کر رہے تھے جس کی وجہ سے انگلستان میں لوگوں کے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہو رہے تھے ۔
ایک دن اس وقت کے برطانیہ کے وزیراعظم سر ونسٹن چرچل نے اپنے ہوم سیکرٹری سے پوچھا کہ عدالتوں کا کیا حال ہے کیا ان میں تواتر سے کام ہو رہا ہے تو ہوم سیکرٹری نے کہا ہاں جناب والا برطانیہ کی عدالتیں باقاعدگی سے اپنے کام میں مشغول ہیں ان کے کام میں کوئی حرج نہیں آیا یہ سن کر برطانوی وزیراعظم نے ایک بڑا ہی تاریخی جملہ کہا اور وہ یہ تھا اگر برطانیہ کی عدالتیں انصاف تقسیم کر رہی ہیں تو پھر یقین مانو ہٹلر برطانیہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا سی طرح اس وقت ذہن میں اسلام کے چوتھے خلیفہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے ایک فرمان کے مطابق وہ معاشرہ تباہی سے کبھی بھی نہیں بچے گا کہ جس میں انصاف عنقا ہوجائے کسی بھی ملک کو بہتر طریقے سے چلانے کے لئے اس کے ریاستی اداروں میں جو لوگ بھرتی کیے جائیں بھلے وہ جج ہوں انتظامی افسر ہوں ڈاکٹر ہوں کالجوں اور سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ ہوں یا مختلف دیگر محکموں کام کرنے والے سول سرونٹ ہوں ان کی سلیکشن میں نہایت ہی احتیاط برتنی چاہئے۔کیونکہ یہ حکومتی مشینری ہے جس کی بخوبی چلنے اور اچھی کارکردگی ہی اسی حکومت کی نیک نامی یا برعکس صورت میں بدنامی کا باعث بنتی ہے اور عوامی مسائل کا حل بھی اسی سے وابستہ ہے یعنی انتظامیہ کا مطلب ہی یہی ہے کہ عوام کی پرسکون زندگی اور ان کو تمام تر بنیادی ضروریات کی بروقت فراہمی کا انتظام کیا جائے اگر کوئی انتظامیہ یا حکومتی مشینری یہ فریضہ انجام دینے میں ناکام ہے تو اسکا مطلب ہے کہ اس کا اپنا وجود بے فائدہ ہے اور موجودہ حالات میںدیکھا جائے تو اس حوالے سے دورس اصلاحات اور موثر اقدامات کی جتنی ضرورت ہے شاید ہی کبھی ہو۔