گزشتہ تین چار مہینوں سے مرکزی اور سندھ کی صوبائی حکومت کے درمیان تو تو میں میں اس بات پر ہوتی رہی کہ کو رونا وائرس کی وبا سے نبرد آزما ہونے کیلئے سمارٹ لاک ڈاو¿ن بہتر طریقہ ہے یا پھر مکمل طور پر لاک ڈاو¿ن اول الذکر سمارٹ لاک ڈاو¿ن پر یقین رکھتی رہی جبکہ ثانی الذکر کی نظر میں مکمل لاک ڈاو¿ن اس مسئلے کا حل تھا تادم تحریر کم ازکم اس ملک میں اس کی شدت میں کمی دکھائی دے رہی ہے جس کا بادی النظرمیں مطلب یہ ہے کہ اس وبا سے نمٹنے کے لئے مرکزی حکومت نے جو پالیسی اپنائی تھی وقت نے اسے درست ثابت کیا ہے پر اس مسئلے پر حتمی فیصلہ ایک مہینے کے بعد ہی ممکن ہوگا‘ مرکزی حکومت کو خدشہ ہے کہ چونکہ عیدالاضحیٰ اور محرم الحرام کے مواقع ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں عوام الناس کے ہجوم کا امکان ہوتا ہے لہذا کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ ان اجتماعات کی وجہ سے یہ وبا دوبارہ پلٹ کر ملک میں پھیل نہ جائے اسی لیے وہ ان دو مواقع پر لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونے سے روکنے کے لیے حتی الوسع میڈیا میں ایک مہم بھی چلا رہی ہے اور اس کی کوشش ہے کہ عوام اس ضمن میں ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کریں بھارتی جاسوس کلبوشن کے بارے میں بھی آج کل ملک کے دانشوروں کے حلقوں اور میڈیا کے ٹاک شوز میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں ‘ اس بھارتی جاسوس کے حوالے سے حکومت نے جو مو¿قف اختیار کیا ہے اسے مخالفین متنازعہ قرار دے رہے ہیں‘ جبکہ حکومت اپنی یہ مجبوری ظاہرکرتی ہے کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل کرنے کے لیے ایسا کیا جا رہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی اداروں کے اصولوں و ضوابط کی پاسداری تمام ممالک پر لازم ہے ۔
یہ بات تو طے ہے کہ اس بھارتی جاسوس کی سزا ابھی ختم نہیں ہوئی لگ یہ رہا ہے،تاہم جو بات اکثر لوگوں کی سمجھ سے باہر ہے وہ یہ ہے کہ اس بھارتی جاسوس کو بچانے کےلئے آخر حکومت اتنا زور کیوں لگا رہی ہے اس قسم کی غلط فہمیاں عوام کے ذہنوں میں اس لیے پیدا ہوتی ہیں کہ ان سے حقائق کو چھپایا جاتا ہے اس معاملے میں کیا یہ بہتر نہ تھا کہ کوئی آرڈیننس لانے کے بجائے اس مسئلے پر پارلیمنٹ میں تفصیلی بحث مباحثے کا سلسلہ شروع کیا جاتا ملک کے سیاسی حلقوں نے گورنر پنجاب کے اس فیصلے کو سراہا ہے جس میں انہوں نے تحفظ بنیاد اسلام بل پنجاب اسمبلی کو واپس کیا ہے تاکہ اس پر سٹینڈنگ کمیٹی غور کرے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بل ایک حساس معاملہ ہے اسے پنجاب اسمبلی 22 جولائی کو پاس کر چکی ہے پر یہ قانون صرف اس وقت بنے گا جبکہ گورنر پنجاب اس پر دستخط کر دیں گے بل اختلافات کا شکار ہے اور اکثر سیاسی رہنماو¿ں نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے اس قسم کے بل لانے سے پہلے ضروری ہوتا ہے کہ بل پیش کرنے والا فرد یا سیاسی پارٹی تمام سیاسی اور دینی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لیڈروں اور علماء کے ساتھ بحث کرکے انہیں اعتماد میں لے اور اس کے بعد اسے اسمبلی میں پیش کیا جائے لگتا یہ ہے کہ یہ کاروائی اس ضمن میں نہیں کی گئی ۔ بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو ملکی سیاسی حالات مدوجزر کا شکار ہیں اور آئے روز کچھ نئے معاملات سامنے آتے رہتے ہیں۔