مرزا غالب کا ایک شعر ہے
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اُڑنے سے پیشتر بھی میرا رنگ زرد تھا
اگر آپ اس شعر کو مولانا اسعد محمود کے اس بیان کے تناظر میں پڑھیں کہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی حکومت کی سہولت کار ہیں پہلے بیان دیا ساتھ نہیں بیٹھیں گے اور پھر راتوں رات ترامیم دے دیں جو منظور بھی ہو گئیں تو پتہ چلے گا کہ یہ شعر کتنا زیادہ اپوزیشن کی ان کوششوں پر صادق آتا ہے جو عید الاضحی کے فوراً بعد تمام سیاسی پارٹیوں کو حکومت کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے سلسلے میں کی جا رہی ہیں ابھی پوری طرح بات بنی ہی نہیں کہ اس میں دراڑ نظر آ رہی ہے اب تو کوئی معجزہ ہی پوزیشن کی جماعتوں کو یکجا کر سکتا ہے کیونکہ بادی النظر میں ہر ایک کا سیاسی ایجنڈا مختلف نظر آتا ہے اگر تمام اپوزیشن جماعتیں کسی ایک نقطے پر متفق ہو جاتی ہیں تو اس میں کوئی ان کا اپنا کمال نہیں ہوگا حکومت کے واسطے اگر کوئی مشکلات پیدا ہوں گی تو وہ اس کے اپنے وزراءکی نااہلی اور نالائقی کی وجہ سے پیدا ہوں گی مولانا اسعد محمود کے والد محترم مولانا فضل الرحمن صاحب دو تین مرتبہ ان کی پارٹی کے ساتھ بعض دوسری جماعتوں کے عدم تعاون پر کف افسوس مل چکے ہیں ویسے عید الاضحی کے فوراً بعد اپوزیشن حکومت کے خلاف کوئی بھی تحریک موثر طور پر اس لیے چلا نہیں سکے گی کہ ایک تو ابھی گرمی کا سیزن ہے اور لوگ سڑکوں پر آنے سے کتراتے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ محرم الحرام کی آمد آمد ہے لہذا جو کچھ بھی اپوزیشن لیڈروں کے ذہن میں ہے اس پر وہ عمل درآمد محرم الحرام کے بعد کہیں جا کر کریں گے۔ 3 اگست 2020 سے حکومت نے سرکاری دفاتر مکمل طور پر کھولنے کا فیصلے پر عملدر آمد شرو ع کیا ہواہے۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں کوروونا وائرس کی وبا کا دم ٹوٹ چکا ہے یا کافی حد تک ٹوٹ رہا ہے موسم میں بھی دھیرے دھیرے ایک آدھ مہینے میں گرمی کی حدت کافی حد تک کم ہو جائے گی اپوزیشن کی جماعتوں کے لئے بھی سیاسی تندور گرم کرنے کا یہی موزوں وقت ہوگا اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے اس مقصد میں کس قدر کامیاب ہوتی ہیں۔ بعض قانونی ماہرین کے مطابق وزیراعظم کے معاونین خصوصی کی دہری شہریت اور ان کی تعداد پر پر کوئی پابندی نہیں اور کسی جگہ بھی یہ نہیں لکھا گیا ہے کہ معاونین دہری شہریت نہیں رکھ سکتے وزیراعظم کو جب عوام منتخب کرتے ہیں تو ان پر بھاری ذمہ واریاں عائد ہو جاتی ہیں کہ وہ ان کو نبھانے کے لیے کسی کی مدد حاصل کریں اگر معاون رکھنے کا اختیار بھی ان کو نہ دیا جائے تو پھر یہ نظام کیسے چلے گا لگتا یہ ہے کہ عمران خان ذہنی طور پرصدارتی نظام حکومت کو پسند کرتے ہیں جبکہ جس نظام کے تحت وہ وزیراعظم بنے ہیں وہ پارلیمانی جمہوری نظام ہے کہ جس میں منتخب اراکین اسمبلی کا ملک چلانے میں بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔
اب یہ تو خدا کو ہی پتہ ہے کہ ان کے بعض معاونین نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ کیوں دیا کیا وہ اپوزیشن کے اراکین کی تنقید کا سامنا نہیں کر سکے کہ جن کو ان کی دوہری شہریت پر اعتراض تھا یا وہ ان کے غیر منتخب ہونے پر معترض تھے اگر یہ وجوہات نہیں تو پھر اور کیا وجہ تھی خدا لگتی یہ ہے کہ جن معاونین نے اپنے مناصب سے استعفیٰ دیا ہے ان میں بعض افراد نے قابل قدر اور قابل ذکر کام کیا خاص کر ان لوگوں نے کہ جو کورونا وائرس کی وبا کے خلاف دن رات نبرد آزما تھے۔ حالیہ مون سون بارشوں میں کراچی کا جو برا حال ہوا وہ حکومت سندھ اور میونسپل کارپوریشن کراچی دونوں کے منہ پر زناٹے دار طمانچے کے مترادف ہے اگر ایک طرف پی پی پی اس صورت حال کے لئے ذمہ دار ہے تو دوسری جانب ایم کیو ایم ‘سال بھر ان دو سیاسی پارٹیوں کے مقامی کرتا دھرتا آپس میں بچوں کی طرح اختیارات اور فنڈز پر لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ہر سال اس معاملے میں اسی طرح وہ ناکامی کا منہ دیکھتے ہیں یہ سب کچھ اس لئے ہوتا ہے کہ اگر ایک طرف مناسب پلاننگ اور بروقت پیش بندی کا فقدان ہے تو دوسری طرف جو پیسہ بارشوں کی وجہ سے سیلابی پانی کی نکاسی کےلئے مختص کیا جاتا ہے وہ یار لوگ کھا پی جاتے ہیں۔