انصاف کی ضرورت

 جہاں اس ملک میں دیگر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں انقلابی اصلاحات کی ضرورت ہے وہاں محکمہ انصاف کے اندر بھی فوری دوررس نوعیت کی اصلاحات درکار ہیں یہ بات تو ٹھیک ہے کہ نچلی عدالتوں میں کسی کو اگر انصاف نہیں ملتا تو اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کے دوران انہیں انصاف مل ہی جاتا ہے پر اعلیٰ عدالتوں میں اپیل میں جانا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں آٹے میں نمک کے برابر ہی ایسے موکل ہوں گے کہ جو ان وکلاءکی بھاری بھرکم فیس کا بوجھ برداشت کر سکیں جو اعلی عدالتوں میں پریکٹس کرتے ہیں اسی طرح بالائی عدالتوں میں جانے کے لیے کورٹ فیس وغیرہ جیسے جو متفرق اخراجات ہوتے ہیں ان کو بھی عام آدمی کی جیب برداشت نہیں کر سکتی اگر حکومت واقعی عام آدمی کو انصاف دلانےکی خواہش مند ہے تو اسے پھر وہ رستے آسان کرنے پڑیں گے کہ جن پر چل کر اس ملک کے عام آدمی کو انصاف مل سکے ہمارے ہاں جس فلسفہ قانون کے تحت عدالتوں میں فیصلے دئیے جاتے ہیں ان کا یہ خاصہ ہے کہ اس میں قانونی موشگافیوں کے ذریعے وکلاءاکثر اپنے موکلوں کو جیل کی سلاخوں سے بچالیتے ہیں اس قانون شہادت کے نیچے مجرموں کو شاذ ہیں قرار واقعی سزا ملتی ہے کہ جو اس کلیہ پر یقین کرے کہ بیشک دس میں سے نو مجرم بری ہو جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں پر ایک بے گناہ کو پھانسی نہ ہو اس جملہ معترضہ کے بعد آئیے آج تھوڑا ذکر ہو جائے ہماری عدالتوں کے بعض جج صاحبان کا کہ جن پر یہ قوم بجا طور پر فخر کر سکتی ہے جسٹس کیانی صاحب نہ صرف یہ کہ ایک نہایت ہی قابل جج تھے بذلہ سنجی میں بھی ان کا جواب نہ تھا مختلف تقاریب میں انہوں نے جو تقاریر کی ہیں وہ کتابی شکل میں موجود ہیں انگریزی زبان پر ان کی گرفت بڑی مضبوط تھی آئیے ان کی ایک تقریر کا خلاصہ آپ کی خدمت میں پیش ہوجائے ایک مرتبہ سر گنگا رام ہسپتال لاہور میں ڈاکٹر صاحبان کی طرف سے منعقدہ ایک تقریب میں ان کو بطور مہمان خصوصی بلایا گیا اپنی تقریر کے دوران انہوں نے بعض ایسے کلمات کہے کہ جن کو سن کر حاضرین ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگئے۔‘ چیف جسٹس کارنیلس زندگی بھر لاہور کے فلیٹیز ہوٹل کے ایک کمرے میں رہائش پذیر رہے نہایت ایماندار اور سادہ انسان تھے اور قابلیت میں بھی ان کا جواب نہ تھا جسٹس کانسٹنٹائن کی قابلیت کی بھی ایک دنیا معترف تھی اسی طرح جسٹس دراب پٹیل نے بھی دیانت داری میں کافی نام کمایا سینئر وکلاءحضرات بعض ججوں کا نام بڑی عزت اور احترام کے ساتھ لیتے ہیں اس ضمن میں جن ججوں کے نام سردست ہمیں یاد آرہے ہیں ان میں جسٹس قیصر خان جسٹس صمدانی جسٹس حمود الرحمان جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس اللہ بخش شامل ہیں ان ججوں نے مشکل سے مشکل سیاسی یا ملٹری ڈکٹیٹر شپ کے دور میں کلمہ حق کہنے سے دریغ نہ کیا۔حقیقت یہ ہے کہ جس ملک میں انصاف کا شعبہ مضبوط اور فعال ہو وہاں پر تمام شعبہ ہائے زندگی میں ترقی کے راستے کھل جاتے ہےں اور کوئی بھی اس قوم کو مغلوب نہےں کرسکتا دوسری طرف انصاف کی فراہمی میں تاخیر یا نہ ہونا وہ امر ہے جس کے باعث معاشرے میں بے چینی پھیلتی ہے اور کئی طرح کی برائیاں جنم لیتی ہے جن ممالک میں ترقی و کامرانی میں اعلیٰ مقام حاصل کیا ہے وہاں پر انصاف کی فراہمی کا ایک موثر نظام موجود ہے اور قانون کی بالادستی ہر صورت قائم رکھی جارہی ہے تمام شہریوں کوبلا امتیاز انصاف کی فراہمی جاری ہے ۔