مسلط جنگ

اٹھارہویں صدی میں جنگ کا پہلا طریقہ یہ سامنے آیا کہ کسی ملک کی فوج اور ہتھیاروں کا رخ دوسرے ملک کی جانب موڑ دیا جاتا تھا اور یوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ ہوتا تھا۔ اُنیسویں صدی میں جنگ کا دوسرا طریقہ متعارف ہوا جس میں صف بندی کر کے حملہ نہیں کیا جاتا تھا بلکہ منتشر اور بیک وقت کئی مقامات سے حملہ آور ہوا جانے لگا۔ دوسری قسم کی جنگ میں افرادی قوت کی بجائے ہتھیاروں پر زیادہ زور رہا۔ بیسوی صدی میں جنگ کا تیسرا طریقہ متعارف ہوا جو چار طریقوں کا مجموعہ تھا۔ اِس میں حملہ کرنے کی رفتار‘ حملہ کرتے ہوئے خود کو مخفی رکھنا‘ اچانک حملہ آور ہونا اور کسی ملک کے دفاعی نظام میں موجود خامیوں کی تلاش کر کے اُس کی پشت سے حملہ کرنا تھا۔ اِس قسم کی جنگی حکمت عملی میں ٹینک‘ بھاری توپ خانہ اور جنگی ہوائی جہاز استعمال کئے گئے۔انسانی تاریخ میں باالخصوص اگر 300 برس کا مطالعہ کیا جائے تو اِس میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں جنگ کے اِنہی تین طریقوں کا استعمال کیا گیا لیکن اِن تین سو سالہ جنگی تاریخ میں ممالک کے درمیان جنگ کا میدان بدل گیاہے اور اب فوجیوں کا ایک دوسرے کے سامنے صف آراہونا ضروری بھی نہیں ہے۔ چلتے چلتے ہم اکیسویں صدی میں آ پہنچے ہیں اور یہاں جنگیں ممالک کے بارے میں غلط معلومات پھیلانے کی صورت میں لڑی جاتی ہیں۔ آج کی جنگوں کا ایک ہتھیار ’انفارمیشن ‘ بھی ہے۔ امریکہ کے ایک اعلیٰ فوجی اہلکار جنرل (ریٹائرڈ) سٹینلے میک کرسٹل نے ایک تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”عصر حاضر کی دفاعی حکمت عملی اور کسی ملک پر حملے میں وہاں کے سوشل میڈیا کا استعمال بھی اہم ہے۔ انہوں نے کہا جنگیں آج سچ جاننے اور سچ کی کھوج کے لئے لڑی جائیں گی اور جہاںمعلومات اور غلط معلومات کی کھوج کے لئے جنگیں ہوں وہاںجنگ کا میدان اور جغرافیائی حدود و قیود بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں۔آج کی جنگ کسی میدان میں نہیں لڑی جاتی بلکہ یہ اعصاب اور ذہنوں پر مسلط کر دی جاتی ہے۔ کسی ملک پر حملہ آور ہونے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ وہاں کے رہنے والوں کی سوچ پر تسلط حاصل کر لیا جائے اور انہیں وہی سچ لگے جو بتایا جائے اور اُنہیں وہی جھوٹ لگے جو بتایا جائے یعنی اُن کے اپنے فیصلہ کرنے کی قوت و صلاحیت ختم ہو جائے اور وہ سوچنے سمجھنے میں اِس حد تک محتاج ہو جائیںکہ اُن کے لئے قابل یقین حکمت عملی یہی ہو جو اُن تک سوشل میڈیا کے ذریعے پہنچ رہی ہو۔ آج کی حقیقت کا رخ یہ ہے کہ سوشل میڈیا جنگ کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں اور ممالک کے لئے جہاں یہ بات ضروری ہے کہ وہ خود کو دشمن کی دفاعی صلاحیت سے باخبر رکھیں اور اُس کے ہتھیاروں کو توڑ بناتے رہیں وہیں غلط معلومات پھیلانے کا بھی سدباب کیا جائے ۔کسی ملک کے خلاف شروع ہونے والی جنگ کے آغاز کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے اور یہ مقررہ وقت سے شروع ہونے کے بعد اختتام تک وقت کے حساب کتاب کے ساتھ جاری رہتی ہے کہ کوئی جنگ کتنے منٹ اور کتنے سیکنڈ جاری رہی اور اِس دورانئے کے دوران کتنا جانی و مالی نقصان یا اخراجات ہوئے۔ موجودہ دور کی ’ہائبرڈ جنگ‘ ایسی ہے کہ یہ دن رات جاری رہتی ہے۔ اِس کا دورانیہ لامحدود ہے اور اِس کا کوئی مقررہ وقت بھی نہیں کہ یہ کب شروع اور کب ختم ہوگی بلکہ اِسے مسلسل جاری رکھا جاتا ہے کیونکہ اِس کا ہدف انسانوں کے اعصاب اور سوچ ہوتی ہے۔ یہ جنگ انٹرنیٹ کے ذریعے ’آن لائن‘ لڑی جا رہی ہے۔ انسانی تاریخ میں جنگوں نے افرادی قوت و ہتھیاروں سے ذہنی و نفسیاتی شکل اختیار کرنے میں 300 سال کا وقت لیا ہے۔ اِسی طرح مشینوں سے انفارمیشن پر مبنی جنگ شروع ہونے میں 10برس کا عرصہ لگا ہے۔ آج کی جنگ مصنوعی ذہانت کے ذریعے لڑی جا رہی ہے ۔ انسانی معاشروں میں جنگیں جاری رہتی ہیں یا پھر جنگوں کی تیاری جاری رہتی ہے لیکن اِن کے ہتھیار‘ طریقہ کار اور انداز بدلتے رہتے ہیں۔ آج ”سوشل میڈیا‘ ‘کا دور ہے۔ آج کے دور کی جنگ چوبیس گھنٹے جاری ہے۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)