یورپ: حادثات کی تاریخ

یورپی ممالک میں مسلمانوں اور وہاں کی سیکولر حکومتوں کے درمیان تعلقات (مثالی تعلق) کو نظر لگ گئی ہے اور کئی ممالک بشمول فرانس سے آمدہ اطلاعات کے مطابق وہاں حالیہ پرتشدد واقعات نے یورپ کے دیگر ممالک میں بھی مسلمانوں اور وہاں کی سیکولر حکومتوں کے درمیان تعلقات میں موجود خلیج کو گہرا کیا ہے۔ اِس سلسلے میں انتہاپسند نظریات اور خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ فرانس کے صدر نے ’اسلامی علیحدگی پسندی‘ کا ذکر کیا۔ صدر ایمانوئل میکخواں کی تقریر کے بعد ’روشن خیالی کے ملک‘ میں سیکولرازم کے مسئلے کے بارے میں پرانا نکتہ¿ نظر پھر سے زیربحث ہے کیونکہ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ سیکولرازم عیسائی ثقافتی خصوصیات کا حامل ہے۔ مبصرین کے نزدیک حکومت کا یہ جامع سیکولر ماڈل اگرچہ تمام شہریوں کے لئے عقیدے کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے لیکن اس کے باوجود اسلام کو بطور مذہب ’غیر ملکی‘ نظریئے اور یورپ میں مسلمانوں کو ’عارضی مہمان‘ کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے چاہے وہ تارکینِ وطن کی تیسری اور چوتھی نسل کے بچے ہی کیوں نہ ہوں۔ بیرون ملک اپنا مستقبل دیکھنے والوں کےلئے یہ تشویشناک صورتحال ہے کیونکہ اب یورپ میں اگرچہ وہ موجود ہیں لیکن اُن کے وجود کو شاید زیادہ عرصے برداشت نہیں کیا جائے گا اور ایسے حالات پیدا ہوں گے جن میں انہیں اپنے آبائی وطنوں کو لوٹنا پڑے۔ فرانسیسی ریاست نے مکمل قدیم سیکولر نظام اپنا رکھا ہے جو فرانسیسی انقلاب اور روشن خیالی کے دور کے فلاسفے کی وراثت کا حصہ ہے جنہوں نے گرجا گھر کو ریاست اور معاشرے سے الگ کرنے کے نظریات پیش کئے تھے۔ فرانسیسی سیکولرازم تاریخی اعتبار سے بالکل غیر جانبدار نہیں رہا بلکہ کثیرجہتی رہی ہے کیونکہ فرانسیسی ریاست نے کیتھولک اور یہودی فرقوں کے ساتھ ایک مراعاتی رشتہ استوار کیا ہے۔ تاریخی پیچیدگیوں کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ فرانسیسی سیکولر ماڈل جمہوری‘ منصفانہ اور تکثیریت پسند ہے‘ مسلمانوں کو گلے لگانے کےلئے ایک اچھا فریم ورک مہیا کرتا ہے اور انہیں عاشرے کا فعال حصہ بننے کا موقع فراہم کرتا ہے کیونکہ سیکولرازم کی بنیاد تمام مذاہب اور عقائد کا احترام ہے اور اس کے تحت قانون کے سامنے تمام شہری اپنے آبائی ملک‘ نسل یا مذہب کی تفریق کے بغیر برابر ہیں۔ موجودہ صورتحال کے بارے میں تشویشناک بات سیکولرازم کا ماڈل نہیں بلکہ موجودہ خلیج کی وسعت ہے جو دونوں طرف سے ’آمرانہ ردعمل‘ کو جنم دینے کا باعث بن سکتی ہے‘ چاہے وہ ’سیکولر صلیبی جنگوں‘ کے بارے میں خدشات کا اظہار کرنے والے ہوں یا پھر فرانسیسی ریاست۔ اگرچہ ریاست کو سیکورٹی خدشات کا متناسب جواب دینے کا حق ہے مگر اس نے ’پریشان کن‘ اقدامات کا ایک سلسلہ شروع ہے جن میں ’اسلاموفوبیا کے خلاف مصروف انجمنوں کو منسوخ کرنے کی کوشش‘ وزارت ِتعلیم اور وزارت ِداخلہ کی طرف سے کچھ جارحانہ بیانات اور آخرکار ’جامع سلامتی‘ کا قانون‘ جس کے بارے میں چند حلقوں کو خدشات ہیں کہ یہ اظہارِ رائے کی آزادی پر پابندی لگا سکتے ہیں۔ فرانسیسی پارلیمان نے چند دن قبل مذکورہ بالا قانون پر ایسے وقت میں بحث شروع کی جب اس کی کئی دفعات پر تنازعہ کھڑا ہو رہا ہے کیونکہ اس قانون کے تحت پولیس کاروائی کے دوران پولیس افسران کی عکس بندی کرنا جرم ہوگا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا سیکولرازم ایک دقیانوسی خیال ہے؟ دنیا بھر میں بہت سے سیاسی دھارے انسانی حقوق کے تحفظ اور شہریوں کے درمیان برابری پیدا کرنے والے سیکولرازم کا تصور فرانسیسی نظامِ حکومت سے حاصل کرتے ہیں۔ دوسری طرف کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سیکولر یورپی حکومتوں نے اپنے معاشروں کو نفرت پر مبنی جرائم اور نسل پرستی سے اور خاص طور پر حالیہ برسوں میں دائیں بازو کی انتہا پسندی کے فروغ سے محفوظ نہیں رکھا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سیکولرازم کا تصور اب دقیانوسی ہو چکا ہے اور اس پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے؟ ماضی کے کسی بھی دور کی نسبت آج کے زمانے میں منصفانہ اور سیکولر ریاست کا نظریہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ جدید تکثیری معاشروں میں (خواہ مغربی ممالک ہوں یا دیگر) امن و خوشحالی کے ساتھ رہنے کے لئے سیکولرازم مفید اور ضروری طریقہ ہے تاہم سیکولرازم لازمی طور پر جمہوری اور تکثیریت پسند نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر سٹالن ازم کے ماڈل پر مذہب مخالف مو¿قف ہے جو آمرانہ اور نظریاتی سیکولرازم بھی ہے۔ واقعات گواہ ہے کہ ذہنیتوں کی تاریخ تیزی سے تبدیل نہیں ہوتی بلکہ حادثات کی تاریخ میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر اسد شاکر۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)