امریکہ کے صدراتی انتخابات کے نتائج پاکستان کے لئے کس قدر خوش آئند ہیں اور دونوں ممالک کے تعلقات کا مستقبل کیا ہوگا اِس تناظر میں اگر یہ پوچھا جائے کہ جو بائیڈن کے صدر بننے کے بعد ’پاک امریکہ تعلقات‘ کے حوالے سے کیا توقعات رکھی جائیں تو جواب ملے گا کہ وہی جو پہلے تھیں۔ جو بائیڈن اور ٹرمپ میں شاید ہی کوئی چیز مشترک ہو لیکن جن چند چیزوں پر یہ متفق ہوتے ہیں ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ ٹرمپ کی طرح جو بائیڈن کے لئے بھی ترجیح افغانستان میں جاری امن مذاکرات ہیں‘ جن میں پاکستان کی مدد اور پاکستان کی جانب سے ملک میں دہشت گردوں کا خاتمہ ہوگا۔ ان دونوں ممالک کے تعلقات میں افغان امن مذاکرات‘ دو طرفہ تجارت اور انسدادِ دہشت گردی کے اہداف جیسے معاملات پر شراکت جاری رہے گی لیکن ساتھ ہی امریکہ‘ چین مخاصمت‘ بھارت اور امریکہ میں بڑھتی ہوئی قربت جیسی مجبوریاں بھی موجود رہیں گی اگرچہ یہ خیال بھی کیا جارہا ہے کہ پاکستان کے حوالے سے امریکی پالیسی کا تسلسل برقرار رہے گا لیکن یہ بات تو طے ہے کہ جو بائیڈن کے دورِ حکومت میں پاک امریکہ تعلقات کے ایک نئے عہد کا آغاز ہوگا۔ اس کی وجہ پاکستان کے ساتھ بائیڈن کا پرانا تجربہ اور خارجہ پالیسی کے وہ تصورات ہیں جو ٹرمپ سے بالکل مختلف ہیں۔ ماضی میں کسی بھی امریکی صدر کو عہدہ سنبھالنے سے پہلے پاکستان کے بارے میں اتنی معلومات نہیں تھیں جتنی جو بائیڈن کو ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے حوالے سے قانون سازی کی ہے۔ پاکستان کے کئی دورے کئے ہیں اور یہاں کی سول اور عسکری قیادت سے براہِ راست تعلقات استوار کئے۔ وہ پاک امریکہ تعلقات کے بہترین اور بدترین ادوار دیکھ چکے ہیں اور انہیں ہلالِ پاکستان بھی مل چکا ہے۔ جارج بش سینئر کے بعد جو بائیڈن خارجہ پالیسی کی سب سے زیادہ سمجھ بوجھ رکھنے والے صدر ہوں گے اور وہ ٹرمپ دور کے مقابلے میں خارجہ پالیسی میں خاطر خواہ تبدیلی لائیں گے۔ ان کی زیادہ تر توجہ دنیا میں جمہوریت اور امریکہ کی قائدانہ حیثیت کی بحالی پر ہوگی۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو پاک امریکہ تعلقات میں بہتری بھی آسکتی ہے اور یہ مزید خراب بھی ہوسکتے ہیں۔ ایک پُراُمید منظرنامے میں تو طرفین افغانستان میں قیامِ امن کے لئے تعاون جاری رکھیں گے۔ دو طرفہ تجارت میں اضافہ ہوگا اور پاکستان دہشت گردی کے نیٹ ورک ختم کرنے کے لئے بھی کوششیں جاری رکھے گا امریکہ کی خارجہ پالیسی میں آنے والی تین تبدیلیوں سے پاک امریکہ تعلقات میں بہتری آسکتی ہے۔ بائیڈن چین کے ساتھ کشیدگی کم کرنے اور صحت اور موسمی تغیر جیسے معاملات پر مل کر کام کرنے کے خواہش مند ہیں۔ وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی تجدید اور بھارت کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ اٹھانے کے لئے بھی پُرعزم ہیں لیکن دوسرا منظرنامہ یہ ہے کہ امریکہ‘ افغان امن عمل میں خاطر خواہ پیشرفت تک پاکستان کے ساتھ تعلقات کو موجودہ سطح پر برقرار رکھے گا لیکن اگر اس امن عمل میں کوئی مشکل آئی اور امریکہ نے اس کی وجہ پاکستان کو سمجھا تو یہ تعلقات مزید خراب ہو جائیں گے اس کے علاوہ امریکہ اور بھارت کی بڑھتی ہوئی شراکت داری کا مطلب ہے کہ امریکہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت پر زیادہ دباو¿ نہیں ڈالے گا اور پاکستان سے بھی مطالبہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ بھارت میں کام کرنے والے دہشت گرد گروہوں کے خلاف کاروائی کرے۔ اس وجہ سے اوباما دور کا ’ڈو مور‘ کا مطالبہ بھی دہرایا جاسکتا ہے۔ اکتوبر میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بائیڈن نے بھارت کے ساتھ تعلقات کی وجہ انسدادِ دہشت گردی اور چین کو محدود کرنا بتائی تھی۔ بھارت امریکہ تعلقات کی وجہ سے بھارت کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی پر بائیڈن کی توجہ حاصل کرنے میں پاکستان کو مشکل پیش آئے گی۔ ماضی کے امریکی صدور کی طرح بائیڈن بھی اس کو ایک ایسے مسئلے کی طرح دیکھیں گے جس سے امریکہ کو کوئی خطرہ نہیں ہے بہرحال پاک امریکہ تعلقات میں ایک نیا موڑ تو ضرور آئے گا۔ وائٹ ہاو¿س میں پاک امریکہ تعلقات کو ایک عرصے سے افغانستان کی عینک سے دیکھا جاتا تھا لیکن اب جبکہ امریکی فوج افغانستان سے نکل رہی ہے تو ان تعلقات کی نئی بنیاد تلاش کرنے کی ضرورت ہوگی۔ بائیڈن کی ایشیا پالیسی کا مرکز چین کو محدود کرنا ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ پاکستان اس وجہ سے اکیلا رہ جائے لیکن ابھی بھی ان تعلقات کو ’اَزسرِ نو استوار‘ کرنے کے امکانات موجود ہیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: مائیکل گوگلیمن۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)