حاصل وصول صفر

قومی معیشت کو بہتر بنانے اور مبینہ لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لانے جیسی احتسابی کوششوں کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے اور صورتحال یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اصلاحات و تبدیلی کا سفر جہاں سے شروع کیا تھا‘ وہیں پر”خالی ہاتھ“ کھڑے نظر آتے ہیں اور اگر اُن کی موجودہ حالت کا موازانہ کسی کھیل سے کیا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ ’حاصل وصول صفر‘ ہے اور حکومت کے بلندبانگ دعوو¿ں اور اب تک کئے گئے اقدامات کے نتائج سے 22 کروڑ (220 ملین) پاکستانیوں کی مالی یا معاشی حالت میں کوئی خاطرخواہ بہتری نہیں آئی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ وزیراعظم عمران خان اور اُن کی کابینہ کے سبھی اراکین حزب اختلاف میں شامل سبھی جماعتوں اور اُن کے قائدین کو ’بدعنوان (کرپٹ)‘ اور اُنہیں ”ڈاکوو¿ں کا گروہ“ قرار دیتے ہیں جس کا جواب دیتے ہوئے حزب اختلاف کی جماعتیں منتخب وزیراعظم کو ’چنیدہ (سلیکٹیڈ)‘ قرار دیتی ہے یعنی اُن کے پاس عوام کی طرف سے ملنے والا مینڈیٹ جعلی ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان جاری کھیل کی یہی کل کہانی ہے۔پاکستان کے مسائل سنجیدہ توجہ چاہتے ہیں۔ قومی امور کو حالات کے رحم و کرم اور حزب اقتدار و حزب اختلاف کی سیاست پر نہیں چھوڑا جا سکتا‘ جس کے باعث غربت میں اضافہ ہوتا رہے جو پہلے ہی کورونا وبا کی وجہ سے دباو¿ میں ہے لیکن کورونا وبا سے پہلے بھی قومی معاشی صورتحال زیادہ قابل ذکر نہیں تھی۔یادش بخیر جولائی 2018ءکے عام انتخابات جیتنے میں‘ عمران خان کامیاب اور نواز شریف ناکام رہے‘ جس کے بعد وزارت عظمیٰ کا تاج عمران خان کے سر پر سجا دیا گیا اور نواز شریف جیل چلے گئے۔ 2 سال قبل 7 کروڑ پاکستانی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے یعنی سات کروڑ پاکستانیوں کی آمدنی 2 ا مریکی ڈالر (300 روپے) یومیہ سے کم تھی۔ آج کی تاریخ میں ایسے انتہائی غریب پاکستانیوں کی تعداد 9 کروڑ تک جا پہنچی ہے اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کی کوششوں کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے اور اُن کی کوششوں کے حاصل وصول کو ’صفر‘ قرار دیا جا رہا ہے۔دو سال قبل پاکستان کا قومی قرض 30ہزار ملین روپے تھا جو بڑھ کر 43 ہزار ملین روپے ہو چکا ہے۔ 2 سال قبل پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار 310 ارب ڈالر تھی جو کم ہو کر 270 ارب ڈالر ہو چکی ہے اور اِن دونوں اعشارئیوں کو بھی دیکھ کر اِسی نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے کہ حکومت کی اِس انتہائی خراب کارکردگی کا بھی ’حاصل وصول صفر‘ ہے۔دو سال قبل پاکستان میں توانائی (بجلی و گیس) کے شعبے کا مجموعی گردشی قرض 1200 ارب روپے تھا جو بڑھ کر 2400 ارب روپے ہو چکا ہے۔2 سال قبل گندم کی قیمت 33 روپے فی کلوگرام تھی جو بڑھ کر 70 روپے فی کلوگرام ہو چکی ہے اور اگر موجودہ حکومت کی کارکردگی کا موازنہ دو سال قبل کی نواز شریف حکومت کی کارکردگی سے کیا جائے تو ’حاصل وصول صفر‘ کی وجہ سمجھ میں آ جاتی ہے۔تحریک انصاف کا ہدف اور ترجیح یہ ہے کہ حزب اختلاف کو کمزور کیا جائے اور اِس کے مقابلے حزب اختلاف کی کوشش یہ ہے کہ تحریک انصاف کو حکومت سے الگ کر دیا جائے۔ جمہوریت جمہوریت کھیلنے والی اِن دونوں جماعتوں کی اِس کارکردگی سے عام آدمی کی زندگی میں بہتری نہیں آئی اور وہ معاشی و اقتصادی بہتری کے ساتھ ملک میں جس سیاسی استحکام کو دیکھنے کا خواہشمند تھا وہ اُمیدیں نہ تو تحریک انصاف سے پوری ہوئی ہیںاور نہ ہی حزب اختلاف اپنا جمہوری مثبت کردار ادا کر رہی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کے حق میں جمہوریت کا ’حاصل وصول صفر‘ آیا ہے۔ پاکستان کو ایک ایسی جمہوریت کی ضرورت ہے جس میں حکومتی حکمت عملیوں کے نتائج برآمد ہوں اور جمہوریت عوام کی زندگیوں میں بہتری لائے۔ جمہوری حکومتوں سے وابستہ عوام کی توقعات پوری ہوں۔ 1990ءسے 2019ءکے درمیانی عرصے میں ویتنام‘ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ نیپال اور انڈونیشیا نے پاکستان کے مقابلے زیادہ ترقی کی۔ چین کی سیاسی بادشاہت طرز کی حکومت نے اِسی عرصے کے دوران غربت میں ایسی غیرمعمولی کمی کی کہ جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ چین میں 1981ءکے مقابلے آج 88 فیصد غریبوں کی تعداد کم ہے اور موجودہ چین کی کل آبادی کے صرف 0.7فیصد غریب ہیں جبکہ پاکستان کی کل آبادی میں انتہائی غریبوں (خط غربت سے نیچے زندگی بسرکرنے والوں) کا تناسب پچاس فی قریب ہے!پاکستان کے سرکاری ادارے قومی خزانے پر بوجھ ہیں۔ ہر سال سرکاری ادارے 1800 ملین (180 کروڑ ) روپے کا خسارہ کرتے ہیں اور یہ خسارہ مستقل بنیادوں پر گزشتہ کئی عشروں سے جاری ہے۔ آخر عوام کے منتخب نمائندوں اور اِن منتخب نمائندوں سے قائم ہونے والی حکومت سرکاری اداروں کے مذکورہ خسارے کو ختم کیوں نہیں کرتی؟ کیا ایسا نہ کرنے کےلئے اُن پر فوج کے ادارے کا دباو¿ ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ بجلی اور گیس کے پیداواری شعبوں اور اِس کی ترسیل کے خراب نظام کی وجہ سے ہر سال اربوں روپے کا خسارہ ہو رہا ہے لیکن اِسے درست نہیں کیا جاتا؟ کیا ایسا نہ کرنے کے لئے بھی حکومت پر فوج کی جانب سے دباو¿ ہے؟ گندم کی قیمت عام آدمی کی قوت خرید سے زیادہ ہو چکی ہے تو کیا یہ بھی فوج کے دباو¿ کی وجہ سے ہوا ہے؟ کیا نواز شریف کو دوبارہ اقتدار میں لانے سے ملک کے معاشی مسائل ختم ہو جائیں گے؟پاکستان کی گزشتہ48 سال کی تاریخ میں 11 مرتبہ عام انتخابات ہوئے ہیں۔ پاکستان میں وہ سب کچھ ہے جو کسی ملک میں جمہوریت کو بنانے اور اُسے چلانے کےلئے ضروری ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں الیکشن کمیشن آف پاکستان ہے۔ الیکشنز (انتخابات) سے متعلق قوانین و قواعد ہیں۔ سیاسی جماعتوں سے متعلق قانون سازی اور قواعد سازی کاعمل مکمل کر لیا گیا ہے۔ احتساب سے متعلق قانون سازی اور قواعد سازی کا عمل بھی مکمل ہے۔ عوام کی حاکمیت برقرار رکھنے کے لئے قانون موجود ہے اور انتخابی حلقہ بندیوں اور انتخابات میں رائے دہی کے عمل سے متعلق بھی قوانین و قواعد (اصول) وضع ہیں لیکن اِن سب کے باوجود بھی ’حاصل وصول صفر‘ کیوں ہے؟ اِس کا ایک ممکنہ جواب یہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے ہاں ایک ایسی جمہوریت ہے جو نمائشی ہے۔ جو بظاہر کام کرتی دکھائی دیتی ہے لیکن اِس سے نتیجہ و کارکردگی (عملی مظاہرے) جیسا حاصل نہیں ہو رہا‘ طور طریقوں والی جمہوریت (procedural) اور کام کاج والی جمہوریت (subtantive) میں فرق یہ ہوتا ہے کہ طور طریقوں والی جمہوریت میں فائدہ منتخب نمائندوں یا اِن نمائندوں کی منتخب جماعتوں کو ہوتا ہے۔ طورطریقوں والی جمہوریت میں فائدہ عوام کا ہوتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اگر چاہتے ہیں کہ وہ وزارت عظمیٰ کے باقی ماندہ عرصے سے فائدہ اُٹھائیں اور کارکردگی دکھانے میں مزید وقت ضائع نہ ہو تو اُنہیں چاہئے کہ مہنگائی میں کمی لانے اور روزگار کے مواقعوں میں اضافہ کریں۔ یہی دو بنیادی ضرورتیں بھی ہیں اور یہی دو امور (مہنگائی میں کمی اور روزگار میں اضافہ) جمہوریت کے ثمرات ظاہر ہونے کے بنیادی محرکات بھی ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)