کورونا: اساتذہ کا کردار

کورونا وبا کے دوران اساتذہ کی خدمات کا اعتراف تو بہت دور کی بات اُن کا غیرمعمولی کردار اور تذکرہ تک سننے میں نہیں آتا۔ ایسے کئی اساتذہ ہیں جو نجی تعلیمی اداروں سے منسلک ہیں جہاں ماہانہ فیس نہایت ہی کم ہونے کے باعث اِن اساتذہ کو ملنے والی تنخواہیں بھی معمولی (واجبی) ہیں۔ کئی اساتذہ ٹیوشن سنٹرز اور گھر گھر جا کر تدریس کرتے ہیں تاکہ وہ گزربسر کر سکیں اور بغور دیکھا جائے تو ایسے اساتذہ کی تعداد زیادہ ہے‘ جن کی مالی حالت اور آمدن زیادہ نہیں۔ جس ملک کے اساتذہ قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوں۔ جس ملک کے اساتذہ اپنے معاشی مستقبل سے بے خبر ہوں۔ جس ملک کے اساتذہ کو ملازمت کے یقینی ہونے کی بھی اُمید نہ ہو وہ کس طرح قوم کی تعمیر کر سکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر وہ طالب علموں کے تعلیمی نقصان سے بچانے کے لئے کتنی دلچسپی لے سکتے ہیں؟کورونا وبا نے تعلیمی اِداروں کے مالکان کو بھی مالی مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے جنہوں نے سکول چلانے کے لئے مالی وسائل قرض لیکر پورے کئے اور نئے قواعد (ایس اُو پیز) کے تحت سکولوں کے لئے ماسک‘ سینیٹائزر اور صابن خریدنے کےلئے بھی مالی وسائل قرض لیکر پورے کئے گئے اب جبکہ حالات دوبارہ معمول پر آنے لگے تھے لیکن کورونا وبا کی دوسری لہر نے گھیر لیا۔ جس کی وجہ سے دس جنوری دوہزاراکیس تک تعلیمی ادارے بند کر دیئے گئے ہیں اور اِس بات کی اُمید و آثار بھی نہیں ہیں کہ تعلیم کا سلسلہ معمول کے مطابق بنا کسی وبائی خطرے دوبارہ جاری و ساری ہوگا کیونکہ جس انداز میں وبا پھیل رہی ہے اور جس انداز میں عوام و خواص اِس سے بچنے کےلئے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے تو ممکن ہے کہ تعلیمی ادارون کی بندش کا دورانیہ مزید چند ماہ کے لئے بڑھا دیا جائے۔پاکستان میں موجود ڈیجیٹل تقسیم ایک حقیقت ہے۔ ہم نے دیکھا کہ کس طرح اس پورے سال اس تقسیم نے تعلیمی عدم مساوات کو بڑھایا ہے۔ متوسط اور اعلیٰ طبقے کے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ تو آسانی سے آن لائن تعلیم پر منتقل ہوگئے لیکن نچلے طبقے کے طلبہ کےلئے یہ ممکن نہیں تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں سکول جانے والے بچوں کی اکثریت نچلے طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ سکول جانے والے بچوں میں پچپن سے ساٹھ فیصد طلبہ سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ پینتیس فیصد کے قریب بچے کم فیس والے نجی سکولوں میں پڑھتے ہیں اور ان میں سے اکثریت کا تعلق نچلے طبقے سے ہوتا ہے۔ یہ بچے ڈیجیٹل تقسیم کا سب سے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ پاکستان میں تقریباً بیس لاکھ استاد موجود ہیں اور ان میں سے لاکھوں نے ان مشکل مہینوں میں اپنی ذمہ داری سے بڑھ کر کام کیا۔ اور ہمیں یقین ہے کہ وہ آئندہ مہینوں میں بھی اس کام کو جاری رکھیں گے۔ کئی اساتذہ نے خود مالی مشکلات کا شکار ہونے کے باوجود اپنے محلے کے غریب گھرانوں یا اپنے ضرورت مند طلبہ اور ان کے گھر والوں کےلئے چندہ جمع کیا۔ کچھ اساتذہ نے مل کر ان گھرانوں کی مدد کی جن کے گھر والے بیمار پڑگئے تھے۔ کئی اساتذہ نے اپنے پاس سے یا اپنے روابط سے چندہ جمع کرکے ضرورت مند طلبہ تک راشن‘ ماسک‘ سینیٹائزر اور صابن وغیرہ پہنچائے۔ یہاں تک کہ کچھ سرکاری سکول‘ جہاں بنیادی سہولیات موجود نہیں تھیں وہاں اساتذہ نے آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کیا۔ لاکھوں اساتذہ نے گھروں پر جاکر یا فون پر طلبہ کے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کی کوشش کی۔ کچھ سکولوں نے یہ نظام وضع کیا کہ طلبہ سکول آکر اپنا ہوم ورک جمع کروا سکتے ہیں اور لے جا سکتے ہیں۔ یہ سب چیزیں نقصانات کا پورا پورا ازالہ تو نہیں کرسکتیں لیکن اس نقصان کو کم ضرور کرسکتی ہیں‘ اگر اساتذہ آگے نہیں بڑھتے تو کتنے ہی بچوں کا تعلیمی سفر ختم ہوچکا ہوتا۔ اب جبکہ سکول ایک بار پھر بند ہوگئے ہیں تو ہمیں یقین ہے کہ اساتذہ پھر سے آگے آئیں گے اور گزشتہ تجربات سے سیکھتے ہوئے اس بار ان کی کاوشیں مزید منظم اور مربوط ہوں گی۔ اس پورے عرصے میں حکومت نے خاطر خواہ مدد نہیں کی۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے تعلیم دینے کا سلسلہ تو شروع کیا گیا تھا لیکن یہ کافی نہیں ہے اور یہ بات بھی واضح نہیں ہے کہ یہ کتنا مو¿ثر ہے اگرچہ تعلیمی نظام چھ مہینوں تک تعطل کا شکار رہا لیکن اس دوران کسی نے بھی یہ نہیں سوچا کہ کیا حکومت نجی اور سرکاری سکولوں کے اساتذہ کی ان کے مذکورہ اقدام میں کوئی مدد کرسکتی ہے؟ کیا اس حوالے سے سکولوں اور اساتذہ کو کچھ وسائل فراہم کئے جاسکتے ہیں؟ اس کے برعکس تمام تر کوششیں یکساں قومی نصاب کی تشکیل پر صرف کی گئیں۔ یقینی طور پر اس وقت یکساں نصاب سے زیادہ اساتذہ کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن کئی افراد کی جانب سے خبردار کئے جانے کے بعد بھی کہ ہمیں اگلے کچھ مہینے کورونا کی پابندیوں کے ساتھ گزارنے پڑیں گے‘ اس حوالے سے کسی کام کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ ہمیں معلوم ہے کہ بچوں کی تعلیم پر کورونا وبا بہت منفی اثرات مرتب کرے گا اور اس وجہ سے سکول جانے والے بچوں کی تعداد میں بھی کمی آسکتی ہے۔ ہمیں اس صورتحال سے بچنے کی ضرورت ہے۔ ملک کا ہر استاد ہمارا عظیم اثاثہ ہے۔ گزشتہ چھ مہینوں کے دوران ان میں سے ہر ایک نے آگے بڑھ کر کام کیا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اساتذہ کی مدد کریں۔ اساتذہ کا سہارا بنیں۔ اساتذہ کی مشکلات کو سمجھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ اگلے چند ماہ تک اپنا کام بخوبی کرسکیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: فیصل باری۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)