کورونا وائرس کا پھیلاو¿ ’تیز سے تیز تر‘ ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے آس پاس روزانہ کی بنیاد پر دوست احباب اور رشتے دار اس وبا کا شکار ہورہے ہیں۔ روز کہیں نہ کہیں سے کسی نہ کسی کی موت کی خبر آرہی ہے۔ حکومت تو بار بار چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ احتیاط کریں‘ ماسک پہنیں‘ ہاتھ دھوئیں اور فاصلہ رکھیں مگر یہ وبا حکومت اور اپوزیشن سے کہیں آگے جاچکی ہے۔ ہمارے لئے اگر صرف کورونا ہی مسئلہ ہوتا تو شاید اس سے ہم نمٹ ہی لیتے لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ کورونا سے جڑے ہمارے اور بھی بڑے گھمبیر مسئلے ہیں مثلاً کورونا پر سیاست۔ اپوزیشن جلسے کر رہی ہے اور حکومت ان جلسوں کو کورونا کے پھیلاو¿ کا ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے۔ اپوزیشن کی مہم میں جو تین ہفتے کا وقفہ آیا‘ وہ تین ہفتے بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز نے گلگت بلتستان کی انتخابی مہم میں خرچ کئے۔ تین ہفتوں کے وقفے سے اور کچھ ہو نہ ہو‘ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی دھواں دار مہم کا زور ضرور ٹوٹ گیا ہے۔ پشاور کا جلسہ اگر بُرا نہیں تھا تو زیادہ اچھا (بڑا) بھی نہیں تھا۔ ایسا تو ہرگز نہیں جس سے حکومت گھبرا جائے۔ حال ہی میں ملتان میں جو ہوا وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ سرکار کی پکڑ دھکڑ نے حزب اختلاف کی مہم میں نئی روح پھونک دی اور جلسہ کامیاب ہوگیا۔ اب اگلا جلسہ لاہور میں شیڈول ہے۔ اس حوالے سے پی ڈی ایم کیا حکمتِ عملی اپناتی ہے یہ کچھ دن میں واضح ہوجائے گا مگر کورونا نے حالات کو اور زیادہ پیچیدہ کردیا ہے۔ کورونا کے اعداد و شمار لائق توجہ ہیں۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر باقاعدگی سے یہ تمام کوائف جاری کر رہا ہے جن کے مطابق کورونا کیسز اور اموات دونوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رواں ہفتے ایک وفاقی کابینہ کے رکن سے پوچھا گیا کہ دوسری لہر میں جہاں ہم آج کھڑے ہیں‘ اس سطح پر ہم پہلی لہر میں کہاں تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ آج کی صورتحال وہی ہے جیسی مئی میں تھی۔ ذہن نشین رہے کہ کورونا کی پہلی لہر کے دوران جب وہ بلند سطح پر بیس جون کے قریب تھی۔ جب ایک دن میں ڈیڑھ سو کے قریب اموات ہور ہی تھیں یعنی اگر ہم نے بہت جلد اور بہت زیادہ احتیاط نہ کی تو پاکستان تیزی سے کورونا کی ایک نئی وبا کی طرف چلا جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہسپتال بھرنا شروع ہوجائیں گے اور آکسیجن والے بستر کم پڑ جائیں گے اور ہیلتھ ورکرز‘ ڈاکٹروں اور نرسوں اور پیرا میڈکیس بڑی تعداد میں کورونا وبا کا شکار ہونا شروع ہو جائیں گے۔ طبی سہولیات کم پڑجائیں تو پھر بھی ہنگامی بنیادوں پر خریدی جاسکتی ہیں لیکن اگر طبی عملہ کم پڑجائے تو وہ کہاں سے لایا جائے گا چنانچہ کورونا کے خلاف مو¿ثر حکمت عملی (حل) صرف اور صرف ایک ہی ہے یعنی احتیاط‘ احتیاط اور احتیاط مگر احتیاط اور سیاست دونوں ساتھ ساتھ کیسے چلیں؟ یہ ہے وہ المیہ جو اس وقت پاکستان کو جکڑے ہوئے ہے یعنی سادہ الفاظ میں معاملہ یہ ہے کہ کورونا زیادہ اہم ہے یا سیاست؟ بظاہر تو جواب آسان ہے کہ کورونا جان لیوا ہے۔ سیاست حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک رسہ کشی ہے۔ مان لیا کہ سیاسی تناو¿ محض ذاتی بنیادوں پر ہونا ضروری نہیں‘ کہیں نہ کہیں تو اصول چھپا بیٹھا ہوتا ہے۔ کوئی نظریہ‘ کوئی یقین‘ کوئی حقیقی جدوجہد کا پہلو۔ عین ممکن ہے ہمارے سیاسی لباس میں یہ نگینے جڑے ہوں مگر جان سے پیاری بھی کوئی چیز ہوتی ہے؟ تو پھر اگر یہ جواب اتنا ہی آسان ہے اور اگر کورونا کو سیاست پر ترجیح دینا قومی فریضہ ہے‘ تو پھر حزب اختلاف جلسے جلوس کرنے پر کیوں تلی ہوئی ہے؟ سیاسی بیان بازی اور الزام تراشی ایک طرف اور لعن طعن اور گالم گلوچ ایک طرف۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ آج ہمارا سیاسی نظام مفلوج ہوتا جارہا ہے۔ یہ نوبت تب آتی ہے جب اس نظام میں قومی سطح کے مسائل سے نمٹنے کی سکت ختم ہوجائے۔ حکومت کا دعوٰی ہے کہ وہ جو کچھ کرسکتی ہے‘ کر رہی ہے۔ جتنی بھی اس میں سکت ہے اور جتنی بھی اس میں اہلیت ہے اس کے مطابق وہ زور لگا رہی ہے مگر حکومت خود اس بات کا اعتراف کر رہی ہے کہ حزب اختلاف کے تعاون کے بغیر کورونا وبا کی موجودہ صورتحال سے نمٹنا ممکن نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ جلسے کرکے حزب اختلاف لوگوں کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ کورونا بڑا مسئلہ نہیں اور جلسوں میں آنے سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا لیکن اس قسم کے تاثر سے بے احتیاطی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسی بے احتیاطی کے ہوتے ہوئے حکومت جو مرضی کر لے کورونا قابو میں نہیں آئے گا مگر اپوزیشن اس پورے عمل کو ’شک کی نگاہ‘ سے دیکھتی ہے۔ کورونا کو نہیں بلکہ حکومت کو اور حکومت کی حکمتِ عملی کو اور حکومت کی نیت کو۔ یہ وہ شک ہے جو کہتا ہے کہ حکومت کورونا کی آڑ میں حزب اختلاف کی مہم کو ناکام بنانے پر تلی ہے اور حزب اختلاف کے غبارے سے ہوا نکالنا چاہتی ہے۔ اس ماحول میں کوئی کسی طرح کی بات کرنے کو تیار نہیں۔ تو پھر کیا کریں؟ یہ سیاسی ٹریفک جام ہے۔ سیاسی معاملات الجھے ہوئے ہیں۔ اگر انہیں سلجھانا ہے تو سب سے پہلے ایسا ماحول بنانے کی ضرورت ہے جس میں بات چیت کی راہ ہموار ہوسکے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: فہد حسین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)